اپنے ایک بیان میں پریس کلب کے ترجمان نے گزشتہ کل ایک اور ملٹی میڈیا جرنلسٹ کامران یوسف کو پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ ایک مجرم کی طرح سلوک روا رکھنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان نے پولیس کی طرف سے لگاتار وادیٔ کشمیر کے صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے عمل کو اظہار رائے اور جمہوریت کے منافی قرار دیا ہے۔
پریس بیان میں کہا گیا ہے کشمیر کے صحافی گزشتہ چند ماہ سے جن مشکل حالات اور بغیر انٹرنیٹ کے اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس سے ہر ایک بخوبی واقف ہے۔ اب پولیس کی طرف ٹویٹر ہینڈل، وہاٹس ایپ اور ای میل کے استعمال سے صحافیوں کو روکنا قانون اور جمہویت کے منافی ہے۔
پریس کے نام بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے اس قسم کی کارروائیوں سے نہ صرف پولیس بلکہ انتظامیہ کے اعلی افسران کو بھی اس بات کا احساس کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ نیوز کلک سے وابستہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ کامران یوسف کو گزشتہ کل پولیس کی بھاری جمعیت نے اپنے گھر سے گرفتار کر کے ایک ہمنام ٹویٹر ہینڈل سے ٹویٹ کے تعلق پوچھ گچھ کے لیے ایک جانب مجرمانہ سلوک اختیار کیا۔ وہیں دوسری جانب تلاشی کی آڑ میں ان کا فون بھی چھین لیا۔
کامران نے کہا کہ پولیس نے ان کے تمام سوشل میڈیا اکائنٹس اور ٹویٹر ہینڈل کو چیک کرنے کے بعد رات میں ایک بجے رہا کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ رات کے وقت گھر سے گرفتار کرنے سے نہ صرف انہیں کافی ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کے گھر والوں کو بھی پولیس کی جانب کی گئی اس کارروائی سے کافی پریشانی اٹھانی پڑی۔