بیشتر عبادت گاہوں کو رضاکارانہ طور پر بند کیا گیا ہے اور کہیں بھی نماز جمعہ کا اجتماع منعقد نہیں ہوا۔
کورونا وائرس کے مثبت کیسوں میں روز افزوں اضافے اور ایک وائرس متاثرہ معزز شخص کی موت سے جہاں لوگ دہشت زدہ ہیں وہیں حکومت نے بھی لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لئے پابندیوں کو مزید سنگین کیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پابندیوں کا مقصد لوگوں کو اس مہلک وائرس سے محفوظ رکھنا ہے جبکہ لوگوں کا الزام ہے کہ پابندیوں کے نام پر مجبوری کی حالت میں گھروں سے نکلنے والوں یہاں تک کہ لازمی خدمات فراہم کرنے والے محکموں کے ملازمین کے ساتھ بھی نامناسب سلوک روا رکھا جارہا ہے۔
جموں وکشمیر پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے اہلکار اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر لوگوں کی سیفٹی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ پولیس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ایک ٹویٹ میں کہا گیا: 'بارش ہو یا دھوپ ہو، ہم سڑکوں پر کھڑے ہیں۔ آپ اپنے گھروں تک ہی محدود رہ کر ہماری اور قوم کی مدد کریں'۔
ادھر کورونا وائرس کے خوف وخطرات کے پیش نظر وادی کے شہر و گام میں کہیں بھی نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی تاہم اکثر مساجد اور دیگر عبادت گاہوں میں اذان دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ انتظامیہ کی اپیل کے بعد بیشتر جگہوں پر مساجد، زیارت گاہوں، امام بارگاہوں اور دیگر عبادت گاہوں کے منتظمین نے رضاکارانہ طور پر یہ مقامات نمازیوں اور عقیدتمندوں کے لئے بند کردیے ہیں۔
جموں وکشمیر حکومت نے تمام ضلع مجسٹریٹوں اور ضلعی پولیس سربراہاں کو ہدایت دی ہے کہ وہ مذہبی لیڈران تک یہ پیغام پہنچائیں کہ وہ کسی بھی صورت کوئی جلسہ یا اجتماع نہ بلائیں۔
حکومتی ترجمان روہت کنسل نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: 'کورونا وائرس کے خلاف جنگ۔ ڈی سیز اور ایس پیز کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مذہبی لیڈران کو سختی سے خبردار کریں کہ وہ کوئی جلسہ یا اجتماع نہ بلائیں۔ عوامی اجتماعات سماجی رابطہ اور وائرس پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہورہے ہیں'۔
کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے اور اس وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کی خاطر ضلع مجسٹریٹ سری نگر نے ضلع میں تمام عبادت گاہوں کو جمعرات کے روز ہی بند کرنے کے احکامات جاری کردیے تھے۔ بیشترعبادت گاہوں بشمول زیارت گاہوں اور گردواروں کے منتظمین نے انتظامیہ کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔
جموں کشمیر میں کورونا وائرس کے مثبت کیسوں کی تعداد 14 ہوگئی ہے جن میں سے 10 کشمیر میں جبکہ 4 جموں میں درج ہوئے ہیں۔ کشمیر میں تصدیق شدہ کیسوں میں ایک سات سالہ لڑکا اور آٹھ ماہ کا کمسن بچہ بھی شامل ہے۔ اب تک سامنے آنے والے 14 مثبت کیسز میں سے ایک معزز شخص کی جمعرات کو موت واقع ہوئی جبکہ ایک مریض صحت یاب ہوچکا ہے۔
حکام نے لازمی خدمات فراہم کرنے والے محکموں سے وابستہ ملازمین سے کہا ہے کہ وہ متعلقہ ضلع مجسٹریٹ دفاتر سے پاس حاصل کریں۔ شکایتیں موصول ہورہی ہیں کہ لوگوں کے لئے اشیائے ضروریہ کی فراہمی کو جان کی قیمت پر یقینی بنانے والوں کو پابندیوں کے نام پر زد وکوب کیا جارہا ہے۔ محکمہ مور صارفین و عوامی تقسیم کاری کے ایک ملازم کو جمعرات کی صبح جہانگیر سرینگر کے نزدیک تعینات جموں وکشمیر پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر زد وکوب کیا۔
دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کہیں مرغا بنایا جارہا ہے تو کہیں ڈنڈوں سے پیٹا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا بھی سلسلہ جاری ہے اور اب تک سینکڑوں مقدمے درج کئے جاچکے ہیں۔
ڈرونز کے ذریعے لوگوں کو رات دن گھروں میں ہی بیٹھے رہنے کی اپیلیں کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ عوام سے اپیل کرنے کے لئے گاڑیوں میں نصب لائوڈ اسپیکروں کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔
شہر سرینگر کی تمام چھوٹی بڑی مساجد بند ہیں اور لوگ گھروں میں ہی نماز پنجگانہ ادا کررہے ہیں۔