ضلع انتظامیہ کی جانب سے وادی کے مختلف اضلاع میں رکھی گئی محدود انٹرنیٹ سہولیات اب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لئے پریشانی کا موجب بن رہی ہے۔
ایک طرف اس ناکافی انٹرنیٹ کی دستیابی کی وجہ سے صحافیوں کو قطاروں میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے وہیں اب ستم ظریفی یہ کہ خبروں کو میل کرنے کی اجازت تب دی جاتی ہے جب ان کی جانچ پڑتال کی گئی ہو۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ نمائندوں کی دن بھر تیار کردہ خبروں، تجزیوں، تبصروں اور رپورٹوں کو پہلے ضلع انتظامیہ کے اہلکاروں کی جانب سے باضابطہ طور جانچ پڑتال کی جاتی ہے کہ خبر کس نوعیت کی ہے، اس میں کیا لکھا گیا ہے۔ خبر کے تعلق سے ویڈیو یا بائٹ کس طرح کی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جس وجہ سے اب جنوبی کشمیر میں کام کر رہے مختلف میڈیا اداروں سے منسلک نمائندگان کو روزانہ اسی طرح کے طرز عمل سے گزر کر ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو لمحہ فکریہ ہے۔
ضلع ترقیاتی کمشنروں کے دفاتر میں دستیاب سست رفتار انٹرنیٹ سہولیات صحافیوں کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ تجارت پیشہ افراد، طلبہ اور ضلع میں مختلف دفاتر کے اہلکار بھی اس انٹرنیٹ سہولیات کو استعمال میں لاتے ہیں۔ جس سے ان مراکز میں کافی بھیڑ بھاڑ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس بھاری رش کے چلتے صحافیوں اور عام لوگوں کے درمیان نہ صرف تلخ کلامی ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات ہاتھاپائی پر بھی نوبت آجاتی ہے۔
وہیں ان مراکز میں محدود انٹرنیٹ سہولیات اور بھیڑ بھاڑ کے باعث صحافی وقت پر اپنی خبر اپنے اپنے مرکزی دفاتر بھیجنے اور پھراُسے وقت پر نشر کروانے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔
وادی کشمیر میںکام کر رہے صحافی مرکزی سرکاری کے ساتھ ساتھ یہاں کی انتظامیہ سے اگرچہ بار ہا یہ پر زور اپیل کر چکے ہیںکہ کم سے کم میڈیا اداروں میں براڈبینڈ انٹرنیٹ خدمات کو بحال کیا جائے تاکہ صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات بہتر ڈھنگ سے انجام دے سکیں لیکن ابھی تک انتظامیہ کیجانب سے یقین دہانیوں کے سوا عملی طور کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ 5اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370اور 35اے کے خاتمے کے بعد جہاں سخت ترین بندشیں عائد کی گئیں وہیں مواصلاتی نظام کو بھی معطل کیا گیا۔ گر چہ مرحلہ وار لینڈلائن اور بعد ازاں پوسٹ پیڈ خدمات بحال کی گئیں وہیں انٹرنیٹ خدمات پابندے کے 5 ماہ بعد بھی ہنوز معطل ہیں۔