یونین ٹریٹری میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی جموں و کشمیر میں جہاں ایک طرف اردو زبان کا سرکاری درجہ منظر نامے سے اوجھل ہوا وہیں وادی کشمیر میں ہندی زبان، جو یہاں تقریباً غیر مانوس زبان ہے، میں تحریر کی گئی تجارتی ہورڈنگس نمودار ہونے لگی ہیں۔
شہر سری نگر کے کئی علاقوں میں ہندی زبان میں تحریر 'لکس صابن' کی اشتہاری ہورڈنگس، جن کا سائز بھی بڑا ہے اور جنہیں بہت ہی خوبصورتی سے ڈزائن بھی کیا گیا ہے، نمودار ہوئی ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم ان ہورڈنگس پر صابن کی ٹکیا کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ لکس صابن کا اشتہار ہے لیکن اس پر جو ہندی زبان میں عبارت لکھی ہوئی ہے وہ ہم پڑھنے سے قاصر ہیں۔شہر سری نگر کے قلب ریگل چوک میں ایک چوراہے پر بھی 'لکس صابن' کی ایک دلکش اشتہاری ہورڈنگ لگائی گئی ہے۔
یو این آئی کے ایک نمائندے نے جب اس ہورڈنگ کے پاس سے گزر رہے قریب دو درجن راہگیروں کو ہورڈنگ پر تحریر عبارت پڑھنے کو کہا تو کوئی بھی راہگیر عبارت کو پڑھ نہ سکا۔
محمد عامر نامی ایک نوجوان راہگیر نے ہورڈنگ کی طرف ایک نظر لگا کر کہا: 'ہورڈنگ پر بنائی گئی صابن کی ٹکیا اور انگریزی زبان میں لکس لفظ پڑھ کر میں سممجھ گیا کہ یہ لکس صابن کا ایڈ ہے، ورنہ ہندی زبان میں جو کچھ بھی اس پر تحریر ہے اس کو میں پڑھنے سے قاصر ہوں'۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ہندی زبان سے زیادہ سے زیادہ دو فیصد لوگ آشنا ہیں باقی لوگوں کے لیے یہ زبان غیر مانوس ہے۔ ہندی زبان سے کسی حد تک واقف ایک شہری نے بتایا کہ وادی کے بعض نجی اسکولوں میں اگرچہ ہندی پڑھایا جاتا ہے جس سے کچھ بچے تو ہندی سے کسی حد تک واقف ہیں لیکن عام طور پر لوگ اس زبان سے نابلد ہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے خطے جہاں ہندی سے قریب ننانوے فیصد لوگ نا آشنا ہیں، میں ہندی زبان میں تجارتی ہورڈنگ لگانا عقل وفہم سے باہر ہے۔
موصوف شہری نے کہا کہ جب لوگ ہورڈنگ پر تحریر زبان ہی نہیں پڑھ سکتے ہیں تو اس کے فوائد سے کیسے واقف ہوسکتے ہیں۔
اس دوران گزشتہ ماہ سری نگر کے جہانگیر چوک تا رام باغ فلائی اوور کے کئی ستونوں پر ہندی زبان میں 'جے شری رام' تحریر تھا تاہم لوگوں نے اس کے بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ یہ معاملہ یہاں 'لکھے من پڑھے خدا' کے زمرے میں آتا ہے۔
ایک اسکالر نے یو این آئی اردو کے ساتھ اس کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا: 'کسی زبان یا ہندی زبان میں ہورڈنگس یا دوسرا مواد تحریر ہونا کوئی بری بات نہیں ہے اور یہ کسی بھی صورت میں قابل اعتراض بھی نہیں ہے لیکن اگر اس زبان سے لوگوں کی غالب اکثریت ناواقف ہو تو اس زبان میں بینر، ہورڈنگ وغیرہ لگانا سعی لاحاصل ہی ثابت ہوگی۔
قابل ذکر ہے اردو زبان کو جموں کشمیر کی زائد از ایک صدی تک سرکاری زبان رہنے کا شرف رہا ہے تاہم مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم ہونے کے فیصلوں کے ساتھ ہی اردو زبان اس اعزاز سے محروم ہوئی ہے۔
جموں کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے مطابق جموں کشمیر میں اسمبلی معرض وجود میں آنے کے بعد سرکاری زبان طے کرنے کا فیصلہ لیا جائے گا۔
ادھر جموں کشمیر کے بیشتر لوگوں کی مانگ ہے کہ اردو زبان جو جموں میں بھی اور کشمیر میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے کو سرنو سرکاری زبان کے درجے سے نوازا جائے۔