انٹرنیٹ پر اس طرح کی معطلی کے سبب کشمیر ملک کا پہلا خطہ بن گیا ہے جہاں اتنے طویل عرصے سے انٹرنیٹ پر پابندی عائد ہے۔
کشمیر کے بعد ڈارجیلنگ واحد علاقہ ہے جہاں گورکھا لینڈ تحریک کے دوران 100 دنوں تک انٹرنیٹ سروس کو معطل رکھا گیا تھا۔
کشمیر میں ابھی تک دو بار ایسا ہوا ہے جب سرکار نے 100دنوں کے زائد عرصے سے یہاں کے لوگوں کو انٹرنیٹ سے محروم رکھا۔ 5اگست سے پہلے 2016میں حزب المجاہدین سے وابستہ عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہوئے عوامی احتجاج کے دوران اس وقت کی بی جے پی - پی ڈی پی مخلوط سرکار میں 133دنوں تک انٹرنیٹ خدمات پر پابندی رہی۔ البتہ براڈبینڈ سروس کو اُس سال کئی دنوں کے بعد ہی بحال کیا گیا تھا، جس وجہ سے عوام کو زیادہ پریشانیوں کا سامنا نہیں رہا لیکن رواں سال 5اگست سے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کیے جانے کے ساتھ ہی مواصلاتی نظام پر بدترین پابندیاں نافظ رہیں۔
اگرچہ پوسٹ پیڈ موبائل اور لینڈ لائن خدمات بحال کی جا چکی ہیں تاہم ایس ایم ایس، پری پیڈ موبائل اور انٹرنیٹ پر پابندی برقرار ہے۔ جس سے نہ صرف زندگی کا ہر ایک شعبہ متاثر ہوگیا ہے بلکہ عام لوگ،طلبہ، تاجر اور صحافیوں سمیت دیگر شعبہ جات سے وابستہ افراد بھی کئی مشکلات اور دقتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
سرکاری محکموں میں اگرچہ براڈبینڈ سروس شروع کی جا چکی ہے۔ تاہم عام لوگوں کے لیے یہ خدمات بحال ہونا نا ممکن نظر آ رہا ہے کیونکہ انتظامیہ خاص کر سیکورٹی ایجنسیوں کو خدشہ ہے کہ انٹرنیٹ سروس کی بحالی کے ساتھ ہی سماجی رابطے کی سائیٹوں پر ملک مخالف اور عوام کو بڑھکانے والا مواد اپ لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ جس سے امن و قانون کی صورتحال کو زک پہنچ سکتا ہے۔
حال ہی میں پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں مرکزی وزیر داخلہ نے کہا تھاکہ وادی میں حالات بہتر ہونے کی صورت میں ہی انٹرنیٹ پر عائد پابندی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
لوگوں کا کہناکہ ایک جانب مرکزی سرکار خود دعویٰ کر رہی ہے کہ کشمیر میں حالات بہتری کی اور گامزن ہیں اور تمام معمولات زندگی بحال ہو چکے ہیں، تو دوسری جانب انٹرنیٹ پر عائد مسلسل پابندی سے سرکار اپنے ہی دعووں کو جھٹلا رہی ہے۔
بہرحال آجکل کے جدید دور میں زیادہ کام کاج انٹرنیٹ پر ہی منحصر ہے جس کو بحال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔