جموں و کشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کی منسوخی اور ریاست کو 2 وفاقی علاقوں میںتبدیل کئے جانے کو اب 137 دن کا عرصہ گزر چکا ہے۔
اگرچہ نجی ٹرانسپورٹ کےساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کی آواجاہی بھی دیکھی جا رہی ہے وہیں دارالحکومت سرینگر سمیت وادی کے دیگر قصبہ جات کے علاوہ شہر خاص میں بھی اب آدھے دن کے لئے دکانیں اور دیگر کاروباری ادارے کھل رہے ہیں جبکہ وادی کے کئی بازاروں میں شام تک دکانیں کھلی نظر آتی ہیں۔
تاہم 5اگست سے قبل جس آب و تاب اور اطمینان سے یہاں کاروباری سرگرمیاں دیکھی جا رہی تھیں، اس طرح کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئیں ہیں۔ کیونکہ ہر سو ابھی بھی غیر یقینی اور اضطرابی صورتحال برابر جاری ہے۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (کے سی سی آئی) کی ایک تازہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وادی کشمیر کی معیشت کو 18ہزار کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔
کے سی سی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے عرصے کے دوران 5لاکھ افراد کو اپنے روزگار سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
وہیں 5اگست سے 3دسمبر تک مرتب شدہ اس رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ زراعت اور اس سے منسلک شعبہ جات کو 5ہزار کروڑ کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
ادھر دوسری جانب آل ٹریڈرس جوائنٹ کارڈی نیشن کمیٹی (کشمیر) نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں اپنے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر میں تنظیم نو کے بعد گزشتہ ماہ 15نومبر تک 75ہزار 200کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ کیپٹل نقصان کے تخمینہ جاتی اعداد و شمار 16 ہزار کروڑ روپے بتائے گئے ہیں۔
جنرل ٹریڈ، باغبانی، سیاحت، ہوٹل انڈسٹریز اور آئی ٹی سیکٹر وغیرہ میں ہوئے نقصانات کےساتھ ساتھ اس رپورٹ کے مطابق 9لاکھ 89ہزار 5سو افراد کا روزگار چھن جانے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 4 ماہ کےدوران جہاں واعی کشمیر کا ہر ایک شعبہ متاثر ہوا ہے۔ وہیں یہاں کی معیشت کو بھی نا قابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔