ETV Bharat / state

کووڈ 19 کے بعد بچہ مزدوری میں اضافے کے خدشات

قومی سطح پر بچوں کی فلاح و بہبود پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے کہا کہ 'ملک کی دیگر جگہوں کی طرح ہی جموں و کشمیر میں بھی ان بچوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے جو ہوٹلز، کھیت کھلیانوں، فکٹریوں، ورکشاپز، گھروں، اینٹ کے بٹھوں وغیرہ کے کاموں میں جسمانی مشقت کر رہے ہیں جس سے ان کے ذہن میں تعلیم حاصل کرنے کا احساس کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔'

کووڈ 19 کے بعد بچہ مزدوری میں اضافے کے خدشات
کووڈ 19 کے بعد بچہ مزدوری میں اضافے کے خدشات
author img

By

Published : Jun 20, 2020, 6:42 PM IST

وہیں مزدوری کے زریعے ان کی نشوونما، تعلیم و تربیت، بچپن اور مسقبل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیو دی چائلڈ یوٹی جموں و کشمیر اور لداخ کے سربراہ محمد شریف بٹ نے کہا کہ زیادہ تر بچوں کی زندگیاں یا تو یتیمی کی وجہ سے یا مالی بدحالی، افراتفری یا تو گھریلو تنازعات سے تاریک بن جاتی ہیں۔

کووڈ 19 کے بعد بچہ مزدوری میں اضافے کے خدشات

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے حوالے سے بچہ مزدوری کے بارے میں جو اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں، وہ رونگھٹے کھڑے کر دینے والے ہیں اور ان اعدادوشمار سے اس بات کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے کہ سرکار بچہ مزدوری کو ختم کرنے کے لیے کتنی سنجیدہ اور فکر مند ہے؟

وہیں اس ضمن میں کس طرح کے وہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹز کے مطابق جموں وکشمیر میں 2 لاکھ 50 ہزار بچہ مزدوری کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔

بچہ مزدوری کی روک تھام، ان کی صحت، پڑھائی اور تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والی سیو دی چائلڈ کے عہدیدار نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت کے دوران مزید کہا کہ کووڈ 19 کے بعد بچہ مزدوری میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا کیونکہ مالی تنگی کی وجہ سے متوسط اور غریب گھرانوں میں ایک تو آپسی جھگڑے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

وہیں والدین کی جانب سے روزمرہ کے اخراجات میسر نہ ہونے کے باعث بچوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کے چلتے بھی بچے جسمانی مشقت کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

محمد شریف بٹ نے کہا کہ جموں و کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں اسکول لگ بھگ 11 ماہ سے بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے پڑھائی پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچہ مزدوری کی تعداد بڑھنے کے اثار نظر آرہے ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھ کر تعلیم محکمے کے ساتھ ساتھ ان سرکاری اداروں کو زیادہ متحرک اور چوکنا رہنا ہوگا جو بچوں کی بہبود اور ان کی باز آبادی کاری کے تعلق سے کام کر رہے ہیں۔

وہیں ان سرکاری اسکیموں کو بھی فعال بنانا پڑے گا جو غریب بچوں کی پڑھائی اور بازآبادی کاری کے لئے بنائی گئی ہیں تاکہ آنے والے وقت میں بچہ مزدوری کو کم کیا جاسکے ۔

وہیں سیو دی چائلڈ جموں و کشمیر اور لداخ یوٹی کے سربراہ نے کہا کہ والدین کی کونسلنگ اور اسکول کھولنے سے پہلے ہی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے تمام اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ والدین اپنے بچوں کو خدشات کے بغیر اسکول بھیج سکیں۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر صحیح معنوں میں حقوق تعلیم کی پاسداری عمل میں لائی جائے تو بہت حد تک بچہ مزدوری کو روکا جاسکتا ہے۔'

وہیں مزدوری کے زریعے ان کی نشوونما، تعلیم و تربیت، بچپن اور مسقبل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیو دی چائلڈ یوٹی جموں و کشمیر اور لداخ کے سربراہ محمد شریف بٹ نے کہا کہ زیادہ تر بچوں کی زندگیاں یا تو یتیمی کی وجہ سے یا مالی بدحالی، افراتفری یا تو گھریلو تنازعات سے تاریک بن جاتی ہیں۔

کووڈ 19 کے بعد بچہ مزدوری میں اضافے کے خدشات

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے حوالے سے بچہ مزدوری کے بارے میں جو اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں، وہ رونگھٹے کھڑے کر دینے والے ہیں اور ان اعدادوشمار سے اس بات کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے کہ سرکار بچہ مزدوری کو ختم کرنے کے لیے کتنی سنجیدہ اور فکر مند ہے؟

وہیں اس ضمن میں کس طرح کے وہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹز کے مطابق جموں وکشمیر میں 2 لاکھ 50 ہزار بچہ مزدوری کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔

بچہ مزدوری کی روک تھام، ان کی صحت، پڑھائی اور تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والی سیو دی چائلڈ کے عہدیدار نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت کے دوران مزید کہا کہ کووڈ 19 کے بعد بچہ مزدوری میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا کیونکہ مالی تنگی کی وجہ سے متوسط اور غریب گھرانوں میں ایک تو آپسی جھگڑے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

وہیں والدین کی جانب سے روزمرہ کے اخراجات میسر نہ ہونے کے باعث بچوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کے چلتے بھی بچے جسمانی مشقت کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

محمد شریف بٹ نے کہا کہ جموں و کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں اسکول لگ بھگ 11 ماہ سے بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے پڑھائی پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچہ مزدوری کی تعداد بڑھنے کے اثار نظر آرہے ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھ کر تعلیم محکمے کے ساتھ ساتھ ان سرکاری اداروں کو زیادہ متحرک اور چوکنا رہنا ہوگا جو بچوں کی بہبود اور ان کی باز آبادی کاری کے تعلق سے کام کر رہے ہیں۔

وہیں ان سرکاری اسکیموں کو بھی فعال بنانا پڑے گا جو غریب بچوں کی پڑھائی اور بازآبادی کاری کے لئے بنائی گئی ہیں تاکہ آنے والے وقت میں بچہ مزدوری کو کم کیا جاسکے ۔

وہیں سیو دی چائلڈ جموں و کشمیر اور لداخ یوٹی کے سربراہ نے کہا کہ والدین کی کونسلنگ اور اسکول کھولنے سے پہلے ہی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے تمام اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ والدین اپنے بچوں کو خدشات کے بغیر اسکول بھیج سکیں۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر صحیح معنوں میں حقوق تعلیم کی پاسداری عمل میں لائی جائے تو بہت حد تک بچہ مزدوری کو روکا جاسکتا ہے۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.