اننت ناگ (جموں کشمیر) : سیب کی صنعت کو وادی کشمیر کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق وادی میں سالانہ 20 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد سیب کی پیداوار ہوتی ہے، جس سے شعبہ باغبانی کو 10 ہزار کروڑ کی آمدن حاصل ہوتی ہے۔ اس صنعت سے یہاں کے تقریباً 45 لاکھ افراد بالواسطہ یا بلاوسطہ منسلک افراد منسلک ہیں۔
سیب کی کاشت سے وابستہ محنت کش کسانوں، باغ مالکان کو ہر برس مختلف چیلینجز کا سامنا رہتا ہے، جہاں کسانوں خاص کر میوہ کاشتکاروں کو خشک سالی، ژالہ باری، غیر متوقع برفباری کی مار جیھلنا پڑتی ہے، وہیں غیر معیاری ادویات، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی، قیمتوں میں بتدریج کمی ہونے سے کسانوں کا حال بے حال ہو جاتا ہے۔ تاہم رواں برس کا کلینڈر میوہ کاشتکاروں کے لئے سود مند رہا، کیونکہ قومی و مقامی منڈیوں میں سیب کو معقول قیمتوں پر فروخت کیا گیا۔ رواں برس ابتدا سے ہی سیب کا اچھا خاصا مارکیٹ رہا، درجہ اول سے درجہ دوم اور سوم کا سیب بھی مناسب قیمتوں پر فروخت کیا گیا اور سیب کے مارکیٹ کی وہی پوزیشن آج بھی برقرار ہے۔ معقول قیمتیں ملنے سے جہاں عام کاشتکار خوش ہے وہیں میوہ تاجر بھی اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔
مارکیٹ کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے تاجروں نے لاکھوں سیب کی پیٹیوں کو کولڈ اسٹوریجس میں ذخیرہ کیا ہے، تاکہ آنے والے وقت میں انہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ ملے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے میوہ کاشتکاروں نے کہا کہ کافی عرصہ بعد سیب کے مارکیٹ میں اچھال دیکھنے کو مل رہا ہے، حالانکہ رواں برس سیب پر اسکیب کی بیماری نمودار ہوئی تھی، جس سے سیب کی کوالٹی خراب ہوئی تھی اور کسان کافی مایوس کن صورتحال سے گزر رہے تھے، تاہم ملک و مقامی منڈیوں میں گزشتہ برسوں کے مقابلہ میں مارکیٹ کافی اچھا رہا جس سے کاشتکاروں کو کافی فائدہ ہوا۔ کسانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ رواں برس سیب کی پیداوار کافی کم رہی جو سیب کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن گیا۔
حالانکہ رواں برس مرکزی سرکار کی جانب سے امریکہ سے در آمد شدہ سیب کی درآمدات ڈیوٹی (امپورٹ ڈیوٹی) میں 20 فیصد کمی کے فیصلے کے بعد سیب کی صنعت سے وابستہ افراد میں سخت ناراضگی پائی جا رہی تھی۔ حزب اختلاف خاص کر کانگریس کی جانب سے سرکار کے اس فیصلے کی سخت نقطہ چینی کی گئی۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس عمل سے یہاں کے سیبوں کے لئے مقابلہ کی کیفیت پیدا ہوگی کیونکہ سرکار اپنے کاشتکاروں کے بجائے امریکہ کے کاشتکاروں کو مارکیٹ فراہم کر رہا ہے، تاہم مناسب قیمتیں ملنے کے بعد وہ سب غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔
مزید پڑھیں: نیفڈ اسکیم سے میوہ کاشتکار ناخوش
وہیں گزشتہ برس سرینگر جموں قومی شاہراہ پر ہفتوں تک سیب سے لدی ٹرکوں کو چلنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے بعد میوہ کاشتکاروں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا، تاہم رواں برس میوہ سیزن کے دوران ٹریفک کی بلا خلل نقل و حمل رہی جس سے منڈیوں تک تازہ سیب کی رسائی ممکن ہو سکی اور سیب مناسب قیمتوں پر فروخت ہوا۔ میوہ کاشتکاروں نے سرکار کے اقدامات کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ وہ مستقبل میں بھی بلا خلل ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے اور مقامی پیداوار کو مناسب مارکیٹ فراہم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں اور خاص کر نقلی جراثیم کش ادویات اور کیمیائی کھاد کی سپلائی کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔