مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں، جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کیا۔
تنظیم نو قانون 2019 کے تحت جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ ختم کیا گیا اور اس کے علاوہ کئی قوانین اور ریاستی کمیشنز کو ختم کر دیا گیا ہے۔
اس نئے قانون کے تحت جموں و کشمیر کا اپنا آئین، اپنا جھنڈا اور پہلے سے حاصل شدہ خصوصی حیثیت ختم ہو گئی۔ تنظیم نو قانون 2019 کے تحت جموں و کشمیر میں کئی قانونی اور انتظامی تبدیلیاں رونما ہوں گی، جن کا اطلاق 31 اکتوبر کے بعد کو جموں و کشمیر اور لداخ کے زیر انتظام خطوں پر ہوگا۔ ماہرین قانون کے مطابق تشکیل نو جموں و کشمیر کے باشندوں کی زندگی پوری طرح سے بدل ڈالے گی۔
بی جے پی حکومت نے دفعہ 370 کو جموں وکشمیر اور لداخ کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا تھا اور انکے مطابق اس کے ہٹانے سے جموں و کشمیر اور لداخ میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بی جے پی کی جانب سے دفعہ 370 کو ہٹانا غیر قانونی ہی نہیں بلکہ عوام کی خواہشوں کے خلاف بھی ہے۔
جموں و کشمیر میں ڈوگرہ شاہی سے ہی دارالحکومت اور اس سے منسلک سبھی دفاتر گرمیوں میں سرینگر اور سردی کے ایام میں جموں منتقل ہوتے آئے ہیں، اس طرح دارالحکومت سال کے چھ مہینے سرینگر اور بقیہ چھ مہینے جموں منتقل ہوا کرتا ہے، تنظیم نو قانون کے تحت بھی دربار مو کا یہ سلسلہ برقرار رہے گا۔ اسکے علاوہ پبلک سروس کمیشن جموں و کشمیر میں برقرار اور پہلے کی طرح کام کرے گا جبکہ لداخ خطے میں یو پی ایس سی کے تحت بھرتیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
تنظیم نو قانون کے تحت عدالت عالیہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی اور ہائی کورٹ بدستور جموں، کشمیر اور لداخ کے لیے مشترکہ طور کرم کرتا رہے گا۔ تنظیم نو کے بعد جموں و کشمیر کا علاقہ کس طرح مستقبل میں برتاؤ کرے گا، اسکے بارے میں کچھ بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ طے ہے کہ کشمیر مکمل طور پر بدل گیا ہے اور عام کشمیری اس بدلاؤ کے بارے میں اندیشوں اور وسوسوں کے شکار ہیں۔