سرینگر: جہاں جمعرات کو سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کے حوالے سے جاری سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل نے مرکزی حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کے لیے قطعی ٹائم لائن نہیں دے سکتے لیکن حکومت وہاں کسی بھی وقت انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے۔وہیں وہیں انتخابات کب ہونگے اس حوالے سے کوئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں مرکزی نے کوئی نہیں بات نہیں کہی، بلکہ بس الجھن پیدا کیا۔ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ مرکز بس جموں و کشمیر میں انتخابات کو ٹالنے کے کوشش کر رہی ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان اعلیٰ سید سہیل بخاری کا کہنا ہے کہ " پارٹی کا موقف یہ ہے کہ ہمارے لیے انتخابات اور ریاستی درجہ ترجیح نہیں ہے اگرچہ یہ اہم جز ہیں لیکن اصل مسئلہ غیر آئینی طور پر ہم سے چھینا گیا خصوصی درجہ یعنی دفعہ 370 ہے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ"ابھی تک الیکشن کمشن اور بی جے پی سرکار انتخابات کو لیکر گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں پھنک رہی تھی۔ پچھلی بار الیکشن کمیشن کے سربراہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ہماری طرف سے انتخابات کی تمام تیاریاں مكمل ہو چکی ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات نہ ہونے سے وہاں خلہ پیدا ہو گیا ہے جس کو پر کرنے کے ضرورت ہے لیکن ہم سرکار کا انتظار کر رہے ہیں۔"
ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں انتخابات کا فیصلہ الیکشن کمشن کا کام ہے، وہ جب چاہیے انتخابات کروا سکتے ہیں۔ ابھی تک ہم نے دیکھا الیکشن کمیشن بی جے پی کے ایکسٹینشن کے طور پر کام کر رہا ہے نہ کی ایک غیر جانب دارانہ ادارے کی طرح۔ اب دلچسپ ہوگا دیکھنا کہ الیکشن کمشن کیا کرتا ہے۔ اصل سوال قانونی ہے اور اس کو لیکر ہم مطمئین ہیں کہ ہماری طرف کے وکلاء نے بڑے ہی مدلل طریقے سے دلیل پیش کی۔ ہم کو اُمید ہے کہ آئین کی بالادستی ہوگی اور عوام کے ساتھ عدالت انصاف کرے گی۔
وہیں نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار کا کہنا تھا کہ مرکزی سرکار کا گزشتہ کئی مہینوں سے نہیں بلکہ برسوں سے یہی اسٹینڈ رہا ہے، کہ جموں و کشمیر میں الکیشن کرائے جائے گے۔ دوسری یہ بات یہ ہے کہ اس وقت یہ بیان دینا کہ جموں و کشمیر میں انتخابات جلد ہونگے یہ بیان الجھن پیدا کر رہا ہے۔ہماری عرضی عدالت عظمیٰ میں یہ ہے کہ پانچ اگست 2019 کو لیے گئے فیصلے غیر آئینی ہیں اور اس لیے اُن کو کالعدم کرنا چاہیے۔ہم عدالت میں یہ بولنے نہیں گئے کہ آپ یہاں انتخابات کراؤ ، ہاں انتخابات جمہوری نظام کے ایک اہم جز ہے اور اس پر بھی کچھ ہونا چاہیے۔ لیکن آج جو عدالت میں بیان دیا گیا وہ صرف اصل مقصد سے بٹکانے کے لیے کیا گیا ہے۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ"جو موقف آج ایس جی نے عدالت عظمی میں پیش کیے گئے اس پر ہمارے وکلا جواب دیں گے ۔میں کپل سیبل سے اتفاق رکھتا ہوں جب انہوں نے انسٹینٹ تردید کے دوران بولا۔پانچ اگست 2019 کے بعد جو ماحول بنایا گیا تھا وہ سب کے سامنے واضح تھا۔ انٹرنیٹ کئی ماہ تک بند تھا، گھروں کے باہر سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات تھے۔ جو دعویٰ وہ کر رہے ہیں وہ بےبنیاد ہیں اُن میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ ہم کو اُمید ہے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ سے جموں و کشمیر کی عوام کو انصاف ملے گا۔
پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے اس حوالے سے بتایا کہ"عدالت میں آج پیش کیے گئے بیانات سرکار کی جانب سے گزشتہ چار برسوں میں دیے گئے بیانات سے مختلف نہیں ہیں۔ میں مایوس ہوا ہوں، جموں و کشمیر کے لیے نہیں بلکہ جڑیشری کے لئے۔ جوڈیشری کے سب سے اعلیٰ پائیدان پر اگر مرکز وہی بیان دیتے ہیں جو گزشتہ چار برسوں سے دیے جا رہے ہیں تو یہ تشویش کی بات ہے۔ عدالت میں اس وقت قانون سے زیادہ وہ سیاسی بیانات دے رہے ہیں۔"اُن کا مزید کہنا تھا کہ"کیا جموں و کشمیر ابھی بھی خصوصی ہے؟ کیا اس ریاست کو توڑ کر یو ٹی بنانے کا نیا رہ عمل بنا رہے ہیں۔ جوڈیشری سے پوری اُمید ہے کیوں کہ وہاں کسی بھی بات کو لیکر جانبدار نہیں ہو سکتے۔ ہم میں سے کوئی بھی جموں و کشمیر سے بڑا نہیں ہے اور اس لئے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے جھانسے میں ہم کو نہیں آنا چاہیے۔"
وہیں اپنی پارٹی کے سینیئر لیڈر منتظر محی الدین کا کہنا ہے کہ "مرکز جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات نہیں کروانا چاہتا ہے اس لیے اس معاملے کو ٹالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر پنچایت، میونسپل اور دیگر انتخابات کر سکتی ہے تو اسمبلی انتخابات کیوں نہیں؟"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ"الیکشن کمشن اگرچہ غیر جانبدار ادارہ ہے لیکن کام تو مرکز کے نیچے کرتا ہے۔ آج ابھی وہی بات دوراہی گئی جو وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کئی بار کہہ چکے ہیں۔
مزید پڑھیں:
بی جے پی جموں و کشمیر کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے اس حوالے سے بتایا کہ جموں و کشمیر کے لیے اسٹیٹ ہڈ موضوع بحث نہیں ہے، کیونکہ پہلے ہی ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا ہے کہ جموں وکشمیر میں اسٹیٹ ہڈ مناسب وقت پر بحال کیا جائے گا اور اس بارے میں عوام کو کنفیوژن کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کو پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے ختم کیا گیا ہے اور اس کو واپس پارلیمنٹ ہی دے سکتا ہے تاہم، جموں وکشمیر کو یوٹی سے واپس ریاست کا درجہ دینا ایک طے شدہ بات ہے جس بارے میں پہلے ہی ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ بیان دے چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 پر سپریم کورٹ میں بحث کے دوران جموں و کشمیر کے لیے ریاستی درجہ کی بحالی کا معاملہ آنے کے بعد یہاں کی سیاسی پارٹیوں نے اس معاملے پر سیاسی روٹیاں سینکنے کا عمل شروع کیا ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا اتحاد ٹوٹ جانے کے بعد 20 جون 2018 سے جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ العمل ہے۔ اس بیچ 5 اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی گئی اور خطے کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔