سرینگر (جموں و کشمیر) : جموں کشمیر کنٹریکٹرس کارڈنیشن ایسو سی ایشن کے صدر غلام جیلانی پُرزا نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’’جو فنڈس لیپس ہو رہے ہیں اس معاملے میں اعلیٰ سطح کی تحقیقات کی جائے تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ کن وجوہات کی بنا پر فنڈس کو جان بوجھ کر روکا جا رہا ہے۔‘‘
پریس کانفرنس کے دوران پُرزا نے ٹھیکہ داروں کی رُکی پڑی بلوں کی واگزاری پر زور دینے کے ساتھ ساتھ 345 کنٹریکٹرز کو بلیک لسٹ کرنے کے معاملہ پر نظر ثانی کا بھی مطالبہ کیا تاکہ ’’ان ٹھیکداروں کے اہل خانہ فاقہ کشی پر مجبور نہ ہوجائیں۔ فنڈز لیپس ہونے کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے پُرزا نے کہا کہ ’’اس سال کے فنڈس لیپس ہوئے ہیں۔‘‘ اور اس معاملے میں انہوں نے سرکاری افسران کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’’فنڈس کے لیپس ہونے میں سرکاری ملازمین ہی ذمہ دار ہیں جس کی اعلیٰ سطح کی جانچ ہونی چاہیے۔‘‘
پُرزا نے مزید کہا کہ ’’سال 2019 سے دیکھا گیا ہے کہ سرکار کی جانب سے وقت پر فنڈس فراہم کیے جا رہے تھے تاکہ تعمیراتی سرگرمیوں میں کوئی رُکاوٹ پیش نہ آئے تاہم ڈی ڈی اوز کو یہ رقومات وقت پر فراہم نہیں کی جاتی ہے اور بلا وجہ فنڈس کو محکموں میں روک دیا جاتا ہے اور مارچ کے آخری ہفتے میں ڈی ڈی اوز کو فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ پریشان ہوتے ہیں کہ اب ان فنڈس کو کس کام میں لگائیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فنڈس لیپس ہو جاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے ایل جی انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ لیپس ہوئے فنڈس کے معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ ہونی چاہئے۔ واجب الادا بلز کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ ’’سرکار نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ سبھی ٹھیکہ داروں کے پیسے رلیز کیے جائیں گے تاہم ابھی تک واجب الادا قومات واگزار نہیں کی گئی۔ آر اینڈ بی، جل شکتی اور دیگر محکموں میں ٹھیکہ داروں کی رقومات رکی پڑی ہے جس کو ابھی تک ریلیز نہیں کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ تین برسوں سے ہم سرکاری اداروں کے چکر کاٹتے آرہے ہیں، مگر رقم واگزار نہیں کی جا رہی ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: Kashmiri Contractors Blacklisted کشمیر میں 345 ٹھیکہ داروں کو بلیک لسٹ کرنے پر سیاسی جماعتیں برہم
ٹھیکہ داروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے معاملہ پر گفتگو کرتے ہوئے پرزا نے کہا: ’’سال 1990میں جو یہاں پر شورش بپا ہوئی اس سے نمٹنے کے لئے سرکار نے ایسے ’بھٹکے‘ ہوئے نوجوانوں کی باز آباد کاری کے لیے ایک پالیسی مرتب کی جس کے تحت ایسے نوجوانوں کو ٹھیکہ داری کے کارڈ فراہم کئے گئے جبکہ کئی ایک کو مختلف محکمہ جات میں بطور عارضی ملازم رکھا گیا اور کسی کو قرضہ دیکر کاروبار شروع کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی۔‘‘ پرزا نے کہا کہ 90کی دہائی کے اوائل میں یہاں کی بیشتر آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ عسکریت پسندی کے ساتھ منسلک تھی اور اسی بنا پر دہائیوں بعد ایسے افراد کو این او سی فراہم نہ کرنا اور انہیں بلیک لسٹ کرنا نہ صرف ٹھیکہ داروں بلکہ ان کے اہل و عیال کے ساتھ بھی ایک ظلم ہے۔