اگرچہ وادی کشمیر میں موبائل خدمات سنہ 2003 میں شروع ہوئی تاہم ان 16 برسوں کے قلیل عرصے میں پوری وادی موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زیر دست آچکی ہے، کیا چھوٹا کیا بڑا، کیا مرد کیا عورت، تاجر و مزدور، آجرو ملازم غرض ہر کوئی اپنے آپ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کے بغیر ادھورا محسوس کرنے لگا ہے۔
تاہم وادی کشمیر میں ناگہانی حالات میں جب انٹرنیٹ اور موبائل خدمات کو معطل کیا جاتا ہے تو عوامی زندگی مفلوج ہوجاتی ہے اور کاروباری ادارے تک ٹھپ ہوجاتے ہیں۔
8 جولائی 2016 کو وادی میں عسکریت پسند برہان وانی کی فوت ہونے کے بعد چھ مہینوں تک انٹرنیٹ خدمات معطل کر دیے گئے تھے جو وادی کشمیر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں سب سے بڑا انٹرنیٹ ڈاؤن مانا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق گذشتہ چھ برسوں کے دوران وادی میں انٹرنیٹ خدمات سو سے زائد بار معطل کیا گیا ہے، جن میں سب سے زیادہ متاثر جنوبی کشمیررہا ہے، وادی کشمیر میں 15 اگست اور 26 جنوری کے موقع پر یا پھر کسی بھی سیاسی رہنما کا دورہ تب بھی انٹرنیٹ خدمات معطل کردیے جاتے ہیں۔
ریاست میں دیوالی، عید یا پھر کوئی دیگر قومی تہوار پرانٹرنیٹ خدمات کو معطل کردینے سے یہاں کے عوام اپنے احباب ورشتہ داروں سے بالکل کٹ کر رہ جاتے ہیں۔
وہیں ماہرین نفسیات (کلینکل سائکولجسٹ) کے مطابق بچوں کو موبائل فون دینے کی درحقیقت کوئی خاص عمر متعین نہیں ہے لیکن سب سے اہم چیز بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون دینے سے قبل ان کو سماجی اور ٹیکنالوجی سے آگاہ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ٹیکنالوجی کی ماہرین کا ماننا ہے کسی بھی چیز کی مثبت اور منفی دو پہلو ہوتے ہیں بالفاظ دیگر حال انسانی ایجاد میں افادیت کے ساتھ نقصان کا بھی اندیشہ پایا جاتا ہے موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی دیگر اشیا کی طرح بازار خود کوئی نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، جب تک ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے انٹرنیٹ اور موبائل فون انسانی استعمال کی محتاج ہے۔ جب ہم اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے تو فائدہ مند ہوں گے اور جب ہم اپنے مقصد سے انحراف کرنے لگے تو یہ نقصان کا سبب بن جائے گا۔