ETV Bharat / state

Child Marriage in J&K: کم عمری میں بچوں کی شادی کا رجحان جموں و کشمیر میں نہ کے برابر

author img

By

Published : Jun 3, 2022, 5:53 PM IST

نیشنل فیملی ہیلتھ کے اعداد و شمار کے مطابق جن ریاستوں اور یوٹیز میں کم عمری میں ہی لڑکیوں کی شادی انجام دی جاتی ہے، ان میں جھارکھنڈ سر فہرست ہے، جب کہ آندھرا پردیش دوسرے اور آسام تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سروے میں جموں و کشمیر میں کم عمری یا بچپن میں ہی شادی کرنے کی شرح سب سے کم ہے۔ J&K Ranks First in 'Lowest Child Marriages' in India

j-and-k-ranks-first-in-lowest-child-marriages-in-india
کم عمری میں بچوں کی شادی کا رجحان جموں وکشمیر میں نا کے برابر

سرینگر: نیشنل فیملی ہیلتھ کی جانب سے ایک نیا سروے سامنے آیا ہے، جس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر واحد ایسا خطہ ہے جہاں ملک کی دیگر ریاستوں یا یونین ٹریٹریز کے مقابلے میں کم عمری یا بچپن میں ہی شادی کرنے کی شرح نہ کے برابر ہے۔J&K Ranks First in 'Lowest Child Marriages' in India

کم عمری میں بچوں کی شادی کا رجحان جموں وکشمیر میں نا کے برابر

سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 6 فیصد ایسی لڑکیاں ہیں، جنہیں شادی کی عمر یعنی قانونی طور 18 برس کی عمر پہنچنے سے پہلے ہی شادی کے بندھن میں باندھا جاتا ہے، لیکن جموں و کشمیر ان ریاستوں اور یوٹیز میں سہر فہرست ہے جہاں کم عمری میں بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی شادی نہیں کی جاتی ہے۔ National Family Health Latest Survey on Child Marriage


ماہرین اس سے مثبت سوچ گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ خواندگی کی شرح میں قابل قدر اضافے سے اب لڑکیوں کے مستقبل پر بھی اتنی ہی توجہ دی جاتی ہے جتنا کہ لڑکوں پر دی جارہی ہے۔ ایسے میں والدین اپنی بچیوں کو بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ مستقبل سنوارنے کے لیے بھی پورا موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ آگے جاکر انہیں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


اعداد شما کے مطابق جن ریاستوں اور یوٹیز میں کم عمری میں ہی لڑکیوں کی شادی انجام دی جاتی ہے، ان میں جھارکھنڈ سر فہرست ہے، جہاں 35 فیصد لڑکیوں کی شادی کم عمری میں ہی کی جاتی ہے۔ اس کے بعد آندھرا پردیش میں یہ تعداد 33 فیصد ہے، آسام میں 32 فیصد، دادرا نگر حویلی اور دمن میں کم عمری شادی کرنے کی شرح 28 فیصد درج کی گئی ہے۔ تلنگانہ میں 27 فیصد جب کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں یہ تعداد 25 فیصد بتائی جاتی ہے۔ ادھر ہماچل پردیش، گوا اور ناگالینڈ میں کم عمری میں لڑکیوں کی شادی انجام دینے کی شرح 7 فیصد ہے وہیں کیرلہ اور پڈوچری میں یہ تعداد 8 فیصد ہے۔



ایڈوکیٹ فضا فردوس کہتی ہیں کہتی کہ تعلیم عام ہونے اور خواتین کے بااختیار بننے اور کم عمر میں شادی کے خلاف سخت قوانین نے بھی لڑکیوں کی بچن میں شادی پر روک لگانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ وہیں لاڈلی بیٹی، حوصلہ اور دیگر سرکاری اسکیمیں بھی میں معاون مددگار ثابت ہوئی ہیں۔

ایسے میں تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں فی الوقت ہزاروں کی تعداد میں ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو شادی کی عمر کی دہلیز پار تو کر گئیں ہیں لیکن جہیز، رسم و رواج اور دیگر سماجی بدعات کی وجہ سے ان کا گھر بسانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 50 ہزاز سے زائد کشمیری خواتین شادی بیاہ کی عمر کو عبور کرنے کے بعد بھی ہم سفر ڈھونڈ نہیں سکی ہیں۔ قانون کے مطابق ملک میں خواتین کی شادی کی عمر 18 برس مقرر ہے جب کہ مرد 21 برس کی عمر کے بعد سے شادی کرسکتے ہیں۔

سرینگر: نیشنل فیملی ہیلتھ کی جانب سے ایک نیا سروے سامنے آیا ہے، جس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر واحد ایسا خطہ ہے جہاں ملک کی دیگر ریاستوں یا یونین ٹریٹریز کے مقابلے میں کم عمری یا بچپن میں ہی شادی کرنے کی شرح نہ کے برابر ہے۔J&K Ranks First in 'Lowest Child Marriages' in India

کم عمری میں بچوں کی شادی کا رجحان جموں وکشمیر میں نا کے برابر

سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 6 فیصد ایسی لڑکیاں ہیں، جنہیں شادی کی عمر یعنی قانونی طور 18 برس کی عمر پہنچنے سے پہلے ہی شادی کے بندھن میں باندھا جاتا ہے، لیکن جموں و کشمیر ان ریاستوں اور یوٹیز میں سہر فہرست ہے جہاں کم عمری میں بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی شادی نہیں کی جاتی ہے۔ National Family Health Latest Survey on Child Marriage


ماہرین اس سے مثبت سوچ گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ خواندگی کی شرح میں قابل قدر اضافے سے اب لڑکیوں کے مستقبل پر بھی اتنی ہی توجہ دی جاتی ہے جتنا کہ لڑکوں پر دی جارہی ہے۔ ایسے میں والدین اپنی بچیوں کو بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ مستقبل سنوارنے کے لیے بھی پورا موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ آگے جاکر انہیں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


اعداد شما کے مطابق جن ریاستوں اور یوٹیز میں کم عمری میں ہی لڑکیوں کی شادی انجام دی جاتی ہے، ان میں جھارکھنڈ سر فہرست ہے، جہاں 35 فیصد لڑکیوں کی شادی کم عمری میں ہی کی جاتی ہے۔ اس کے بعد آندھرا پردیش میں یہ تعداد 33 فیصد ہے، آسام میں 32 فیصد، دادرا نگر حویلی اور دمن میں کم عمری شادی کرنے کی شرح 28 فیصد درج کی گئی ہے۔ تلنگانہ میں 27 فیصد جب کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں یہ تعداد 25 فیصد بتائی جاتی ہے۔ ادھر ہماچل پردیش، گوا اور ناگالینڈ میں کم عمری میں لڑکیوں کی شادی انجام دینے کی شرح 7 فیصد ہے وہیں کیرلہ اور پڈوچری میں یہ تعداد 8 فیصد ہے۔



ایڈوکیٹ فضا فردوس کہتی ہیں کہتی کہ تعلیم عام ہونے اور خواتین کے بااختیار بننے اور کم عمر میں شادی کے خلاف سخت قوانین نے بھی لڑکیوں کی بچن میں شادی پر روک لگانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ وہیں لاڈلی بیٹی، حوصلہ اور دیگر سرکاری اسکیمیں بھی میں معاون مددگار ثابت ہوئی ہیں۔

ایسے میں تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں فی الوقت ہزاروں کی تعداد میں ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو شادی کی عمر کی دہلیز پار تو کر گئیں ہیں لیکن جہیز، رسم و رواج اور دیگر سماجی بدعات کی وجہ سے ان کا گھر بسانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 50 ہزاز سے زائد کشمیری خواتین شادی بیاہ کی عمر کو عبور کرنے کے بعد بھی ہم سفر ڈھونڈ نہیں سکی ہیں۔ قانون کے مطابق ملک میں خواتین کی شادی کی عمر 18 برس مقرر ہے جب کہ مرد 21 برس کی عمر کے بعد سے شادی کرسکتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.