جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ نے عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر مرکز کے زیر انتظام خطے میں امرناتھ یاترا کی تیاریوں کے تعلق سے انتظامیہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔
گزشتہ روز چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس ونود چیٹرجی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے امرناتھ یاترا کے انعقاد کے تعلق سے عدالت میں دائر عرضی پر سماعت کے دوران انتظامیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’یاترا کے دوران عالمی وبا کورونا وائرس کے چلتے کیا کیا احتیاطی تدابیر عمل میں لائی جائیں گی اور یاتریوں کو قرنطینہ میں رکھنے کے کیا بندوبست کیے گئے ہیں۔ اگر یاترا کا انعقاد ہوتا ہے تو کیا ضلع انتظامیہ ہر خطرے سے نپٹنے کے لئے تیار ہے؟
عدالت نے اس حوالے سے انتظامیہ کو یاترا سے متعلق تمام تر تفصیلات بینچ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
بینچ نے عرضی داخل کرنے والے وکیل سچن شرما کو بھی عدالت عظمیٰ اور انتظامیہ کی جانب سے مختلف مذہبی یاترا کے لیے جاری کی گئی ہدایت کو پڑھ کر عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈویژن بینچ نے جموں و کشمیر انتظامیہ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اسیم سہانی کو حکم دیا ہیں کیا وہ پتہ لگائیں کہ ’’مرناتھ یاترا کے انعقاد کو لے کر انتظامیہ کا کیا فیصلہ ہے؟ اگر یاترا کا انعقاد ہوتا ہے تو ہر روز کتنے یاتریوں کے پہنچنے کی امید ہے؟ اور عالمی وبا سے بچنے کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں؟‘‘
سماعت کے دوران ایڈوکیٹ شرما نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر امرناتھ یاترا کو رواں برس انعقاد نہ کرنے کی گزارش کرتے ہوئے عدالت میں عرضی داخل کی تھی۔
شرما نے عارضی میں دعویٰ کیا تھا کہ ’’یاترا کے دوران سیکورٹی فورسز کی تعیناتی عمل میں لائی جاتی ہے، میڈیکل کیمپ قائم کیے جاتے ہیں، لنگر لگائے جاتے ہیں اور یاتریوں کے لیے گھوڑوں کا بندوبست بھی رکھا جاتا ہے۔ یہ سب مقامی لوگوں کے تعاون سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ اس وقت پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی عالمی وبا کورونا وائرس ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اس لیے رواں سال امرناتھ یاترا کا انعقاد کرنا صحیح قدم نہیں ہے۔‘‘
عرضی میں مزید کہا گیا تھا کہ ’’امرناتھ یاترا کے راستے پر برف ابھی بھی آٹھ سے دس فیصد حصے پر موجود ہے جسے ابھی تک ہٹایا نہیں گیا ہے۔ وہیں جموں کے بھگتی نگر میں واقع یاتری نواس اور ریلوے اسٹیشن کے نزدیک کالیکا بھون اس وقت قرنطینہ مراکز میں تبدیل کیے گئے ہیں۔ ایسے حالات میں یاترا کا انعقاد کرنا صحیح نہیں ہے۔‘‘