ETV Bharat / state

'کشمیر میں لوگوں کے اختیارات چھینے نہیں گئے ہیں'

مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں آئین کی دفعہ 370 کے زیادہ تر التزامات غیر مؤثر کر کے وہاں کے لوگوں کے اختیارات چھینے نہیں گئے ہیں بلکہ ان سے زیادہ ملے ہیں۔

فائل فوٹو
author img

By

Published : Nov 21, 2019, 11:43 PM IST

مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے جسٹس این وی رمن، جسٹس بی آر گوئي اور جسٹس سبھاش ریڈی کی بینچ کے سامنے درخواست گزاروں کے وکلاء کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دفعہ 370 کے زیادہ تر دفعات غیر مؤثر کر کے جموں و کشمیر میں لوگوں سےاختیارات چھینے نہیں گئے ہیں، بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ حقوق ملے ہیں۔

مسٹر مہتا نے کہا کہ 'جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے بعد وہاں ویسے عوامی بنیادی 106 قانون مؤثر ہو گئے ہیں، جو وہاں خصوصی ریاست کے درجہ کے تحت لاگو نہیں تھے'۔
انہوں نے کہا، 'جموں و کشمیر میں ہسپتالوں اور عوامی مقامات کے تمام ویڈیو دکھایا جا سکتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں حالات معمول ہوئے ہیں'۔

سالیسٹر جنرل نے کہا کہ لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانا حکومت کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک نہ صرف سرحد پار دہشت گردی کا شکار ہے، بلکہ اس دہشت گردی کو وادی کے کچھ مقامی علیحدگی پسند لوگوں کی طرف سے شہہ بھی ملتی رہی ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام صوبہ بننے کے بعد مقامی لوگوں کو اس کے فوائد ملنے والے ہیں۔ عدالت کو نہ صرف کچھ لوگوں کی اظہار کی آزادی کی حفاظت کرنی ہے، بلکہ یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ ایک بڑی تعداد کے بنیادی حقوق بھی محفوظ رہے۔
مسٹر مہتا نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ درخواست گزار کشمیر کی ایسی تصویر کیوں پیش کر رہے ہیں؟ سالیسٹر جنرل نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں اس سے پہلے تعلیم کا حق لاگو نہیں تھا، لیکن ایک بھی آدمی عدالت سے یہ مطالبہ نہیں آیا کہ ریاست کے بچوں کے لئے تعلیم کا حق لاگو کرایا جائے۔ کئی بار عدالت کے سامنے غلط معلومات پیش کر گمراہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے 1990 کے بعد جموں و کشمیر میں پرتشدد واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح دفعہ 370 پر حتمی فیصلہ کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ریاست میں بہت کم پابندی اس وجہ سے عائد ہے تاکہ ریاست کے لوگوں کی زندگی اور املاک کی حفاظت کو یقینی بنائی جائے۔ ابھی بھی انٹرنیٹ کے علاوہ سب کچھ نارمل ہے

مسٹر مہتا نے کہا، یہ کہنا کہ ایک حکم کے ذریعے پوری ریاست میں پابندیوں کا اطلاق کر دیا گیا، غلط دلیل ہے۔ مقامی حکام کی معلومات اور خطرے کا خدشہ کے پیش نظر پابندی لگائی گئی ہے۔ جموں کشمیر کے سات پولیس تھانہ علاقوں میں پہلے دن سے کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی ۔ لداخ میں کوئی پابندی نہیں لگائی ہے۔ ریاست کی بیشتر عوام امن چاہتے ہیں اور کچھ عناصرسے اس کے مفادات کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے.
انہوں نے ایک ایک کر کے پابندی ہٹانے کا سلسلہ وار تفصیلات بھی بینچ کے سامنے رکھا۔انہوں نے کہا کہ چار ستمبر تک تمام بنیادی فون سروس وہاں بحال کر دی گئی تھی، 27 اگست سے اسکول کھلنے شروع ہوگئے اور 23 اکتوبر تک سارے اسکول کھل گئے تھے۔
مسٹر مہتا نے واضح کیا کہ ریاست میں مکمل طور پر انٹرنیٹ پر پابندی نہیں ہے، 280 ای ٹرمینل بنائے گئے ہیں، جن کے ذریعے لوگ انٹرنیٹ سروس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سارے اخبار جموں و کشمیر سے شائع ہو رہے ہیں، سوائے کشمیر ٹائمز کے، جن کے ایڈیٹر نے خود ہی سری نگر سے اخبار نہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے جسٹس این وی رمن، جسٹس بی آر گوئي اور جسٹس سبھاش ریڈی کی بینچ کے سامنے درخواست گزاروں کے وکلاء کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دفعہ 370 کے زیادہ تر دفعات غیر مؤثر کر کے جموں و کشمیر میں لوگوں سےاختیارات چھینے نہیں گئے ہیں، بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ حقوق ملے ہیں۔

مسٹر مہتا نے کہا کہ 'جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے بعد وہاں ویسے عوامی بنیادی 106 قانون مؤثر ہو گئے ہیں، جو وہاں خصوصی ریاست کے درجہ کے تحت لاگو نہیں تھے'۔
انہوں نے کہا، 'جموں و کشمیر میں ہسپتالوں اور عوامی مقامات کے تمام ویڈیو دکھایا جا سکتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں حالات معمول ہوئے ہیں'۔

سالیسٹر جنرل نے کہا کہ لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانا حکومت کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک نہ صرف سرحد پار دہشت گردی کا شکار ہے، بلکہ اس دہشت گردی کو وادی کے کچھ مقامی علیحدگی پسند لوگوں کی طرف سے شہہ بھی ملتی رہی ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام صوبہ بننے کے بعد مقامی لوگوں کو اس کے فوائد ملنے والے ہیں۔ عدالت کو نہ صرف کچھ لوگوں کی اظہار کی آزادی کی حفاظت کرنی ہے، بلکہ یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ ایک بڑی تعداد کے بنیادی حقوق بھی محفوظ رہے۔
مسٹر مہتا نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ درخواست گزار کشمیر کی ایسی تصویر کیوں پیش کر رہے ہیں؟ سالیسٹر جنرل نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں اس سے پہلے تعلیم کا حق لاگو نہیں تھا، لیکن ایک بھی آدمی عدالت سے یہ مطالبہ نہیں آیا کہ ریاست کے بچوں کے لئے تعلیم کا حق لاگو کرایا جائے۔ کئی بار عدالت کے سامنے غلط معلومات پیش کر گمراہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے 1990 کے بعد جموں و کشمیر میں پرتشدد واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح دفعہ 370 پر حتمی فیصلہ کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ریاست میں بہت کم پابندی اس وجہ سے عائد ہے تاکہ ریاست کے لوگوں کی زندگی اور املاک کی حفاظت کو یقینی بنائی جائے۔ ابھی بھی انٹرنیٹ کے علاوہ سب کچھ نارمل ہے

مسٹر مہتا نے کہا، یہ کہنا کہ ایک حکم کے ذریعے پوری ریاست میں پابندیوں کا اطلاق کر دیا گیا، غلط دلیل ہے۔ مقامی حکام کی معلومات اور خطرے کا خدشہ کے پیش نظر پابندی لگائی گئی ہے۔ جموں کشمیر کے سات پولیس تھانہ علاقوں میں پہلے دن سے کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی ۔ لداخ میں کوئی پابندی نہیں لگائی ہے۔ ریاست کی بیشتر عوام امن چاہتے ہیں اور کچھ عناصرسے اس کے مفادات کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے.
انہوں نے ایک ایک کر کے پابندی ہٹانے کا سلسلہ وار تفصیلات بھی بینچ کے سامنے رکھا۔انہوں نے کہا کہ چار ستمبر تک تمام بنیادی فون سروس وہاں بحال کر دی گئی تھی، 27 اگست سے اسکول کھلنے شروع ہوگئے اور 23 اکتوبر تک سارے اسکول کھل گئے تھے۔
مسٹر مہتا نے واضح کیا کہ ریاست میں مکمل طور پر انٹرنیٹ پر پابندی نہیں ہے، 280 ای ٹرمینل بنائے گئے ہیں، جن کے ذریعے لوگ انٹرنیٹ سروس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سارے اخبار جموں و کشمیر سے شائع ہو رہے ہیں، سوائے کشمیر ٹائمز کے، جن کے ایڈیٹر نے خود ہی سری نگر سے اخبار نہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.