سرینگر:جموں وکشمیر میں صنف نازک کے تئیں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ایسے میں گزشتہ 3 برسوں کے دوران کشمیر کے پولیس تھانوں میں جہیز اور خواتین کے تئیں دیگر زیادتیوں کے 11 سو سے زائد معاملات درج ہیں۔
گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے اگرچہ عدلیہ کے علاوہ چند ایک اضلاع میں وویمن پولیس اسٹیشن بھی موجود ہیں، تاہم عدالتوں میں معاملات کے نپٹارے میں طوالت اور وویمن پولیس اسٹیشنز میں کیسوں کی بھرمار کی وجہ سے تشدد کی شکار خواتین کو وقت پر انصاف نہیں مل پارہا ہے جس وجہ سے گھریلو تشدد کی شکار اکثر خواتین رپورٹ درج کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کررہی ہیں۔
گھریلو تشدد کے بڑھتے واقعات اور عدالتوں میں اس طرح معاملات کے نپٹارے میں طوالت سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے سینیئر ایڈوکیٹ فضا فردوس سے خصوصی گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر خاص کر وادی کشمیر میں گزشتہ برسوں کے دوران خواتین کے تئیں گھریلو تشدد کے واقعات میں 6 فیصد سے زائد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔گھریلو تشدد کے مختلف نوعیت کے معاملات سامنے آرہے ہی، جن میں ازدواجی زندگی میں تلخیاں،جہیز کی خاطر تنگ طلب،مار پیٹ، عصمت زیزی اور دیگر قسم کے معاملات شامل ہیں اور ان معاملات میں اضافے کے کئی وجوہات کار فرما ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ایڈوکیٹ فضا فردوس نے کہا کہ ایک جانب عدالتوں میں جوڈیشل افسران اور دیگر عملے کی کمی ہے، وہیں دوسری جانب گھریلو تشدد کے معاملات کی بھر مار ہے۔ ایسے میں عدالتوں میں اس طرح کے معاملات طوالت کا شکار ہوجاتے ہیں جس کے نیتجے میں تشدد کی شکار خواتین کو وقت پر انصاف حاصل نہیں ہو پاتا ہے۔
بات چیت کے دوران ایڈوکیٹ فضا فردوس نے کہا کہ گھریلو تشدد کے کئی معاملات ایسے بھی ہیں، جنہیں آپسی افہام و تفہیم کے ذریعے مقامی سطح پر یا محلہ کمیٹیوں کی مداخلت سے سلجھائے جاسکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے۔چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل بھی عدالت پہنچتے ہیں،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کیسز کی بھرمار کی وجہ سے پھر معاملات کے نپٹارے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔
قومی کمیشن برائے خواتین کو گزشتہ 3 برسوں کے دوران زیادتیوں کے 412 شکایات موصول ہوئیں ہیں۔جن میں بیشتر معاملات جہیز اور عصمت ریزی کی کوششوں سے متعلق تھیں۔ سال 2020 میں کمیشن کو 144 ،سال 2021 میں 157 جبکہ رواں سال کے مارچ مہینے تک قومی کمیشن کو 32 شکایات موصول ہوئیں ہیں۔
مزید پڑھیں: Pendency in Courts: کشمیر، 4مقدمات تیس برسوں سے زیر سماعت
ایڈوکیٹ فضا فردوس کہتی ہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران کورونا وبا نے متعدد افراد کو روزگار سے محروم کیا جس کے نیتجے میں بڑھتی آپسی تلخیاں بھی خواتین کے تئیں گھریلو تشدد کی وجہ بن گئیں۔جموں وکشمیر میں تنظیم نو کے بعد 4 برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود وومنز کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لیا گیا، جس کا براہ راست اثر گھریلو تشدد کی شکار ہورہی خواتین پر پڑ رہا ہے۔دفعہ 370 کی منسوخی اور اسٹیٹ کمیشن برائے خواتین کو زم کئے جانے کے بعد قومی کمیشن برائے خواتین نے سرینگر میں "مہیلا جن سنوائی" کے نام سے اب تک صرف ایک پروگرام کا اہتمام کیا ہے۔