چار برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد رواں ماہ کی 25 تاریخ کو ترال کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے پبلک نوٹس جاری کی جس میں اس ہلاکت کے گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کا حکم دیا گیا۔
مجسٹریٹ کے مطابق اگر جو بھی شخص اس ہلاکت کے بارے کوئی علم، مواد یا اس بارے میں کوئی شواہد پیش کرنا چاہتا ہے تو ایک ہفتے کے اندر مجسٹریٹ کے روبرو دن کے گیارہ بجے تا تین بجے ان کے دفتر میں مل سکتا ہے۔ مجسٹریٹ کے مطابق یہ معاملہ اہم نوعیت کا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے مجسٹریٹ نے بتایا کہ انہیں انتظامیہ کی جانب سے تحقیقات شروع کرنے اور گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کا حکم ملا ہے۔
واضح رہے کہ خالد مظفر وانی کی لاش 13 اپریل سنہ 2015 میں جنگل میں پائی گئی تھی اور ان کے جسم پر تشدد کے نشان تھے۔
اس ہلاکت پر مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ خالد مظفر کو فورسز اہلکاروں نے مارا ہے جبکہ فورسز کی جانب سے اس کی تردید کی گئی تھی، فورسز کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا کہ خالد اپنے بھائی برہان وانی اور ساتھیوں سے ملنے گیا تھا اور فائرنگ میں ہلاک ہو گیا۔
عوام کی جانب سے اس معاملہ پر سخت ردعمل اور احتجاج کے سبب کچھ روز بعد حکومت نے اس ہلاکت کی اصل وجہ جاننے کے لیے تحقیقات کا حکم دیا تھا، تاہم نا معلوم وجوہات کی بنا پر تحقیقات آج تک شروع نہیں کی گئی تھی۔