بدھ کو بھارت اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں دو برس کی عارضی رکنیت کیلئے آٹھویں مرتبہ منتخب ہوا ہے اور اس کی یہ عارضی رکنیت 2021 تا 2022 ہے۔
بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ میں بھارت کو 193 ارکان میں سے 184 ووٹ حاصل ہوئے۔ بھارت کے علاوہ آئرلینڈ، ناروے اور میکسیکو بھی سیکورٹی کونسل میں دو سال کی عارضی مدت کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔
بھارت اس سے قبل سنہ 1950 ۔1951؛ 1967۔1968؛ 1972۔1973؛1977۔1978؛ 1984۔1985؛ 1991۔1992 اور 2011۔ 2012 میں سیکورٹی کونسل کا ممبر رہ چکا ہے۔
منتخب ہونے کے بعد بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'بھارت تمام ممبران کے ساتھ مل کر عالمی امن، حفاظت اور یکجہتی کے لئے کام کرے گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر سے ہزاروں میل دور وادی کشمیر میں بھارت کے سیکورٹی کونسل میں منتخب ہونے پر عوامی حلقوں میں اس سے متعلق بحث شروع ہوئی ہے کہ 'اس عارضی رکنیت سے کشمیر کے مسئلے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔'
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 'یہ رکنیت چوںکہ عارضی ہوتی ہے لہذا اس سے مسئلہ کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔'
سیاسی مبصر اور کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سیاست کے پروفیسر نور احمد بابا نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'عارضی ارکان کو کوئی ویٹو کا اختیار نہیں ہوتا ہے جس سے کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔'
ان کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کونسل میں جو پانچ مستقل ممبران ہیں فقط ان کو ہی ویٹو کا حق حاصل ہے اور اگر عارضی ممبر کوئی مسئلہ سامنے لاتا ہے تو دیگر مستقل ممبر ویٹو پاور کے باعث اس پر حاوی ہوتے ہیں۔
نور احمد بابا نے مزید کہا کہ اس سے قبل پاکستان بھی کئی مرتبہ سیکورٹی کونسل کا عارضی رکن رہ چکا ہے اور اس سے بھی اس مسئلے پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
سینئر صحافی اور مصنف گوہر گیلانی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'عارضی رکن کا سیکورٹی کونسل میں مثبت رول نہیں ہوتا ہے۔'
گوہر گیلانی کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی بھارت اس کونسل کا سات مرتبہ عارضی رکن رہا ہے اس کے بعد بھی کشمیر کے حالات جوں کے توں ہی رہے۔
کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھارت نے جنوری 1948 میں کشمیر مسئلے پر بحث کرنے کی گزارش کی تھی جس کے بعد سیکورٹی کونسل نے یکم جنوری 1948 میں ’جموں و کشمیر قیوسچن‘ (Jammu and Kashmir Question) کے نام سے قرار داد پیش کی۔ اس قرار داد کے بعد سیکورٹی کونسل نے 20 جنوری 1948میں قرارداد نمبر 39 کے تحت اقوام متحدہ کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان کا قیام عمل میں لایا۔
اس کمیشن نے کشمیر مسئلے پر بحث کے بعد ایک قرارداد پاس کی جس میں دونوں ممالک سے اس بات پر زور دیا گیا کہ وہ ’’کشمیر میں استصواب رائے عامہ کے ذریعے اس تنازعے کو حل کریں۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس 16 اگست کو اقوام متحدہ کے مستقل ممبر چین نے کشمیر سے متعلق بحث کی ایک قرارداد سامنے لائی جس پر سیکورٹی کونسل ممبران نے کشمیر پر بات کی تھی۔ چین نے یہ قرارداد مرکزی سرکار کی جانب سے جموں و کشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370اور 35اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی منسوخی کے بعد اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پیش کی تھی۔
گزشتہ برس 5اگست کو مرکزی سرکار کی جانب سے کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کی منسوخی کے بعد اسے دو مرکزی زیر انتظام خطوں - جموں و کشمیر اور لداخ - میں تقسیم کیا گیا تھا۔