سرینگر (جموں و کشمیر): ایک دلچسپ پیشرفت میں، وادی کشمیر میں گزشتہ تین برسوں کے مقابلے میں ریکارڈ شدہ انسانی و جنگلی حیات کے تصادم سے ہونے والی اموات کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف پروٹیکشن جموں و کشمیر کی رپورٹ کے مطابق، 2022-2023 میں 13 کے مقابلے میں رواں مالی سال میں صرف نو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
الطاف حسین، سینٹرل وائلڈ لائف وارڈن نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ ’’گزشتہ تین برسوں میں، جنگلی جانوروں کے مہلک حملوں میں 329 افراد زخمی اور 32 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2023 میں اب تک ہمالیائی بلیک بیئرز اور تیندوے کے حملوں میں نو افراد ہلاک اور 136 زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ دونوں خطرے سے دوچار جانور ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے مزید واقعات سامنے آ سکتے ہیں جب کہ رواں مالی سال ابھی جاری ہے۔
یکم اپریل 2021 سے 31 مارچ 2022 کے درمیان جنگلی جانوروں کے حملوں کی وجہ سے دس افراد ہلاک اور 75 زخمی ہوئے۔ اسی طرح یکم اپریل 2022 سے 31 مارچ 2023 تک 118 افراد زخمی اور 13 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یکم اپریل 2023 سے 6 دسمبر 2023 تک پچھلے برسوں کے مقابلے میں کم لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ وائلڈ لائف عہدیدار کے مطابق ’’ہلاکتوں کو کم کرنے کی ہماری ایک ایسی کوشش ہے جس پر ہم سب کو فخر ہونا چاہیے۔‘‘
- " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data="">
محکمے کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ زیادہ خطرے والے مقامات یا جنگل کے قریب رہتے ہیں وہ حفاظتی ضوابط پر سختی سے عمل کر رہے ہیں۔ وائلڈ لائف ایکٹ اور بیداری کی مہم دونوں کا ہی یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے، کیونکہ تصادم کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انسانوں اور جنگلی حیات کے درمیان تصادم کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: راجوری میں جنگلی جانوروں کے حملہ میں دو شہری زخمی
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’جب تیندوے، ہمالیائی بلیک بیر یا کسی دوسرے جانور کے دیکھنے کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں تو ہماری ریسکیو ٹیمیں فوراً روانہ ہو جاتی ہیں۔ جانوروں کو بچانے کے لیے اور معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے انہیں (ٹیموں) کو اکثر کئی روز تک کیمپ لگانا پڑتا ہے۔ کئی دنوں تک چلنے والے اس طرح کے ریسکیو آپریشنز کے دوران اہلکاروں کی طرف سے علاقے میں گھر گھر جا کر بیداری مہم بھی چلائی جاتی ہے۔ اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔‘‘
خطے میں انسانوں اور جنگلی جانوروں کے تصادم کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سال 2006 سے کشمیر میں اس تصادم میں تقریباً 250 انسانوں کی جانیں گئیں اور 3000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان حملوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر شمالی کشمیر میں۔ تنازع کی بنیادی وجہ قدرتی رہائش گاہوں میں انسانی مداخلت ہے۔ یہ مداخلت شروع سے ہی موجود تھی اس وقت سے بھی جب قدرتی جگہیں (جنگلات) بہت زیادہ تھے اور لوگ کم تھے۔
اگرچہ تیندوے زیادہ تر علاقائی ہوتے ہیں تاہم تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیندوے اب ایسے نہیں رہے۔ وائلڈ لائف عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’’تیندوے اب صرف جنگلوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ کھانے کی تلاش میں انسانی بستیوں کا بھی رخ کرتے ہیں۔ اور اکثر آوارہ کتوں کو اپنا شکار بناتے ہیں اور انہوں نے شہری آبادی میں کتوں کو شکار بنانا معمول بنا لیا ہے۔ اسی وجہ سے محکمہ نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں چوبیس گھنٹے ریسکیو کنٹرول روم قائم کیے ہیں۔‘‘
دلچسپ امر ہے کہ 2011 سے 2020 تک کے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تیندووں کی 44 اموات میں سے زیادہ تر قدرتی تھی یا پھر انسانی حملوں کی وجہ سے تیندوے مارے گئے۔ جب کہ مزید چار کو حکومتی منظوری سے ہلاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ تیندے یا ریچھ کے حملوں کے متاثرہ افراد کو حکومت کی جانب سے امداد فراہم کی جاتی ہے۔ انتقال یا مستقل طور پر معذور ہونے کی صورت میں حکومت متاثرہ یا (موت کی صورت میں) متاثرہ کے اہل خانہ کو تین لاکھ روپے تک ایکس گریشیا امداد فراہم کرتی ہے۔ جبکہ دیگر حالات میں نقصان کی نوعیت اور شدت کی بنیاد پر 5,000 روپے سے لے کر تین لاکھ روپے تک کا معاوضہ دیا جا سکتا ہے۔ حکام کے مطابق 2006 اور 2022 کے درمیان انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم کے متاثرین کو مجموعی طور پر 10 کروڑ روپے کی گرانٹ ملی ہے۔