ہاؤس بوٹ مالکان کے مطابق ایک صدی قبل ڈل میں تین ہزار کے قریب ہاؤس بوٹ موجود تھے۔ لیکن آج 930 کے قریب ہاؤس بوٹس ہیں اور مستقبل میں ان کی تعداد مزید کمی ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ ہاؤس بوٹ کی تعداد میں کمی اور انکی خستہ حالی میں سرکار قصوروار ہے۔
دیودار کی لکڑی سے تعمیر کیے جانے والے ہاؤس بوٹ کو مکمل کرنے میں ایک برس کے قریب وقت درکار ہوتا ہے۔ اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگانے کے لیے کشمیر کے ہنر مند فنکار اس پر طرح طرح کے نقوش تراشتے ہیں جس سے یہ ہاؤس بوٹ سیاحوں کے لیے باعث کشش بن جاتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ہاؤس بوٹ مالک یاسین تومان کا کہنا ہے کہ کئی برسوں سے سرکار ہاؤس بوٹ مالکان کو ڈل کی خوبصورتی اور اس کے ماحول کو خراب کرنے لیے ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے جو ڈل جھیل میں مقیم افراد کے خلاف غلط پالیسیوں اور سوچ پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہ ہاؤس بوٹ کا وجود کشمیر کی تاریخ، ورثے اور یہاں کی ثقافت سے جڑا ہوا ہے۔
یاسین تومان نے مزید کہا کہ 1848 میں جب کشمیر میں سیاحت کا آغاز ہوا تو اسی دوران ہاؤس بوٹ انگریزوں کے لیے باعث کشش بنے۔انہوں نے کہا کہ ہاؤس بوٹ کشمیری فن اور ہنر کی ایک بہترین نمائش اور عکاس ہے جس سے کشمیر کی ثقافت اور تہذیب جھلکتی ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ 1983 میں اس وقت کی سرکار نے نئے ہاؤس بوٹس کی تعمیر پر پابندی عائد کر دی ہے جو ہنوز جاری ہے۔ تومان نے انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے ہاؤس بوٹ مالکان اور ہانجیوں کے خلاف ذہن تیار کیا ہے اور ایک جنگ جیسی چھیڑ رکھی ہے۔
محکمہ سیاحت کے ناظم نثار احمد وانی نے کیمرے پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ڈل جھیل کی رونق اور شان کو برباد کرنے کے لیے ہاؤس بوٹ اور ڈل میں رہائش پذیر لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا ایک طرف ہاوس بوٹ سے ڈل کے پانی اور ماحول کو آلودہ کرنے والا مواد نکلتا ہے وہیں ہاؤس بوٹ مالکان اور ڈل میں رہنے والے لوگ غیر قانونی تعمیرات کرکے جھیل پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں۔
نثار احمد نے کہا کہ ڈل کے تحفظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے سرکار نے نئے ہاؤس بوٹس کی تعمیر اور مرمت پر پابندی عائد کر دی ہے۔