ETV Bharat / state

تیرہ جولائی 1931 کا تاریخی واقعہ سیاست کی نظر

سنہ 1931 میں کشمیری عوام نے سرینگر میں شخصی راج کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔ شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر 22 افراد کو ہلاک کیا۔

تیرہ جولائی 1931 کا تاریخی واقعہ سیاست کی نظر
تیرہ جولائی 1931 کا تاریخی واقعہ سیاست کی نظر
author img

By

Published : Jul 13, 2021, 6:11 AM IST

جموں و کشمیر کی تاریخ میں 13 جولائی کا دن گزشتہ چند برسوں سے سیاست کا شکار ہو رہا ہے۔

سنہ 2018 سے قبل شہر خاص کے نوہٹہ علاقے میں واقع مزار شہداء میں مین اسٹریم اور علیحدگی پسند جماعتیں 1931 کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔

سنہ 1931 میں کشمیری عوام نے سرینگر میں شخصی راج کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔ شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر 22 افراد کو ہلاک کیا۔ یہ لوگ پائین شہر کے رعناواری علاقے میں قائم سینٹرل جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوگئے تھے جہاں ایک افغان قیدی عبدالقدیر کے مقدمے کی شنوائی ہونے والی تھی۔

مؤرخین کے مطابق عبدالقدیر نے سرینگر کی جامع مسجد میں اچانک نمودار ہوکر ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی تھی جس کے بعد شہر میں جگہ جگہ مظاہرے ہوئے تھے۔

حکام نےعبدالقدیر کو فوری طور گرفتار کیا تھا۔ وہ ایک انگریز سیاح کے ساتھ وارد کشمیر ہوئے تھے اور بعض مورخین کے مطابق ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے، جہاں انہوں نے کشمیری عوام کی بے بسی کی داستان سنی تھی۔

سینٹرل جیل کے باہر قتل عام کے بعد کشمیر میں شخصی راج کے خلاف تحریک میں سرعت آگئی اور جمہوری نظام اور خودمختار حکومت کے لیے تحریک نے زور پکڑ لیا۔

تیرہ جولائی 1931 کا تاریخی واقعہ سیاست کی نظر

13 جولائی کو جموں و کشمیر میں شہداء کو خراج پیش کرنے کے تئیں سرکاری تعطیل بھی ہوتی تھی اور اس روز سیاسی رہنما مزار شہداء پر حاضر ہوکر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔ سرکاری تقریب میں پولیس کا ایک دستہ شہداء کو گارڈ آف آنر پیش کرتا تھا۔

مئورخین کا کہنا ہے کہ 13 جولائی کا واقع جموں و کشمیر کی تحریک کا اہم گوشہ ہے جس روز کشمیری عوام نے حکومتی مظالم کے خلاف اٹھائی تھی۔

لیکن قوم پرست جماعت بی جے پی تاہم اس دن کو یوم شہداء تصور نہیں کرتی۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ مہاراجہ کا تعلق جموں سے تھا اور کشمیری عوام نے انکی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔

کشمیر کی سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر ان شہداء کو خراج پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی سے ریاست میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر: یوم شہداء آج، تقاریب پر پابندی

گزشتہ برسوں سے بی جے پی اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ مہاراجہ کے جنم دن کو ریاست میں سرکاری طور عام تعطیل کے طور منایا جائے۔ بی جے پی نے پی ڈی پی کی مخلوط حکومت میں بھی اس ضمن میں سنہ 2017 میں ریاستی قانون سازیہ میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس پر ریاست میں کافی سیاسی تنازعہ برپا ہوا تھا۔

دوسری طرف سے علیحدگی پسندوں کا ماننا ہے کہ 13 جولائی کے شہداء کا مشن پوری طرح پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا ہے۔

جموں و کشمیر کی تاریخ میں 13 جولائی کا دن گزشتہ چند برسوں سے سیاست کا شکار ہو رہا ہے۔

سنہ 2018 سے قبل شہر خاص کے نوہٹہ علاقے میں واقع مزار شہداء میں مین اسٹریم اور علیحدگی پسند جماعتیں 1931 کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔

سنہ 1931 میں کشمیری عوام نے سرینگر میں شخصی راج کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تھا۔ شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر 22 افراد کو ہلاک کیا۔ یہ لوگ پائین شہر کے رعناواری علاقے میں قائم سینٹرل جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوگئے تھے جہاں ایک افغان قیدی عبدالقدیر کے مقدمے کی شنوائی ہونے والی تھی۔

مؤرخین کے مطابق عبدالقدیر نے سرینگر کی جامع مسجد میں اچانک نمودار ہوکر ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی تھی جس کے بعد شہر میں جگہ جگہ مظاہرے ہوئے تھے۔

حکام نےعبدالقدیر کو فوری طور گرفتار کیا تھا۔ وہ ایک انگریز سیاح کے ساتھ وارد کشمیر ہوئے تھے اور بعض مورخین کے مطابق ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے، جہاں انہوں نے کشمیری عوام کی بے بسی کی داستان سنی تھی۔

سینٹرل جیل کے باہر قتل عام کے بعد کشمیر میں شخصی راج کے خلاف تحریک میں سرعت آگئی اور جمہوری نظام اور خودمختار حکومت کے لیے تحریک نے زور پکڑ لیا۔

تیرہ جولائی 1931 کا تاریخی واقعہ سیاست کی نظر

13 جولائی کو جموں و کشمیر میں شہداء کو خراج پیش کرنے کے تئیں سرکاری تعطیل بھی ہوتی تھی اور اس روز سیاسی رہنما مزار شہداء پر حاضر ہوکر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔ سرکاری تقریب میں پولیس کا ایک دستہ شہداء کو گارڈ آف آنر پیش کرتا تھا۔

مئورخین کا کہنا ہے کہ 13 جولائی کا واقع جموں و کشمیر کی تحریک کا اہم گوشہ ہے جس روز کشمیری عوام نے حکومتی مظالم کے خلاف اٹھائی تھی۔

لیکن قوم پرست جماعت بی جے پی تاہم اس دن کو یوم شہداء تصور نہیں کرتی۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ مہاراجہ کا تعلق جموں سے تھا اور کشمیری عوام نے انکی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔

کشمیر کی سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر ان شہداء کو خراج پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان لوگوں کی قربانی سے ریاست میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر: یوم شہداء آج، تقاریب پر پابندی

گزشتہ برسوں سے بی جے پی اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ مہاراجہ کے جنم دن کو ریاست میں سرکاری طور عام تعطیل کے طور منایا جائے۔ بی جے پی نے پی ڈی پی کی مخلوط حکومت میں بھی اس ضمن میں سنہ 2017 میں ریاستی قانون سازیہ میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس پر ریاست میں کافی سیاسی تنازعہ برپا ہوا تھا۔

دوسری طرف سے علیحدگی پسندوں کا ماننا ہے کہ 13 جولائی کے شہداء کا مشن پوری طرح پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.