ETV Bharat / state

کشمیر کے 'ویر زارا' - unique love story of india and pakistan

سرینگر شہر کے رہنے والے حمزہ فاروق اور لاہور کی رہنے والی ماہِ نور کا نکاح سنہ 2014 میں دھوم دھام سے ہوا۔ ماہ نور کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے آٹھ برس کا انتظار کرنا تھا۔ گزشتہ برس مارچ مہینے کی 2 تاریخ کو ماہ نور ہمیشہ کی طرح اپنے ملک پاکستان کے لیے روانہ ہوئی، تاہم انہیں دوبارہ واپس بھارت نہیں آنے دیا گیا۔ وجہ عالمی وبا کورونا وائرس اور بھارت - پاکستان تعلقات تھے۔

کشمیر کے 'ویر زارا'
کشمیر کے 'ویر زارا'
author img

By

Published : Apr 9, 2021, 2:25 PM IST

Updated : Apr 9, 2021, 6:18 PM IST

سنہ 2004 میں ریلیز ہوئی فلم ویر زارا جہاں بہترین ہدایت کاری، کہانی اور اداکاری کی وجہ سے پوری دنیا میں پسند کی گئی۔ وہیں اس فلم کی کہانی نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور دونوں ممالک کے باشندگان کو ہورہی مشکلات کو بھی موضوع بحث بنایا۔ اگرچہ اس فلم کو منظر عام پر آئے 17 سال ہو چکے ہیں۔ تاہم زمینی حقائق ابھی بھی ویسے ہی ہیں۔ آج ہم آپ کو ملواتے ہیں کشمیر کے ویر زارا سے۔

سرینگر کے رہنے والے حمزہ فاروق اور لاہور کی رہنے والی ماہ نور کا نکاح سنہ 2014 میں دھوم دھام سے ہوا۔ نکاح کے بعد ماہ نور کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے آٹھ برس کا انتظار کرنا تھا۔ اس دوران وہ نوری ویزا پر اپنے شوہر کے ساتھ سرینگر میں رہتی تھیں اور ہر سال پاکستان تین مہینے کے لیے اپنے ویزا میں توسیع کرانے کے لئے جاتی تھیں۔

نوری ویزا ایک عارضی ویزا ہوتا ہے جو صرف ان خواتین کو ملتا ہے جن کا نکاح پاکستان سے باہر ہوا ہو۔ گزشتہ برس مارچ مہینے کی 2 تاریخ کو ماہ نور ہمیشہ کی طرح اپنے ملک پاکستان کے لیے روانہ ہوئی۔ تاہم انہیں دوبارہ واپس بھارت نہیں آنے دیا گیا۔ وجہ عالمی وبا کورونا وائرس اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ناسازگار تعلقات تھے۔

کشمیر کے 'ویر زارا'

حمزہ کی چھوٹی بہن سعدیہ فاروق نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'میری بھابھی اور بھائی ایک برس کے بعد امسال مارچ مہینے کی پہلی تاریخ کو دبئی میں ملے۔ میری بھابھی کو پہلے ترکی جانا پڑا کیونکہ دبئی نے پاکستان سے آنے والے شہریوں پر عالمی وبا کے پیش نظر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ آج بھائی اور بھابھی ایک ساتھ ہیں اور خوش ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارا کنبہ بکھر چکا ہے۔ کوئی دبئی میں ہے، کوئی پاکستان میں اور کوئی یہاں تو کوئی وہاں۔ ہم نے بھارتی حکومت اور پاکستانی حکومت دونوں کو لکھا، تاہم سبھی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ میری بھابھی گھر سے دور ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہو رہی تھی، اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ میرے بھائی کو ان سے ملنے دبئی جانا چاہیے۔

حمزہ اور ماہ نور کے پڑوسی اور رشہ دار ان کو اب ویر زارا کہہ کر پکارنے لگے ہیں۔

دبئی سے فون کے ذریعے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے حمزہ فاروق کا کہنا تھا کہ 'میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ہوں کہ ایک برس بعد اپنی اہلیہ سے مل کر کیسا لگا۔ مجھے امید تھی کہ اپریل کے مہینے سے دوبارہ دونوں ممالک کے درمیان عائد ٹریول پابندی ختم کر دی جائے گی لیکن عالمی وبا کورونا وائرس کے بڑھتے معاملات کے پیش نظر میری امید پست ہو رہی ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'نوری ویزا پر ملک کی دیگر ریاستوں کے رہنے والوں کو تو جانے دیا جا رہا ہے اور جموں و کشمیر پر بھی پابندی عائد ہے۔ میری اہلیہ اپنے گھر کو کافی یاد کرتی ہے۔'

سعدیہ کا کہنا ہے کہ 'میری بھابھی میری خالہ ذاد بہن بھی ہے۔ میری والدہ کی بہن کی شادی پاکستان میں ہوئی تھی۔ 2014 میں جب ہم پاکستان گئے تھے تو گھر والوں کو لگا کہ حمزہ اور ماہ نور کا نکاح کرایا جائے جس کے بعد دونوں کی رضا مندی سے یہ ممکن ہوا۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہاں آنے کے بعد میری بھابھی کوئی نوکری نہیں کر سکتی تھی کیونکہ ان کے پاس تمام ڈگری پاکستان کی تھی۔ اسی لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان فوڈ ایکسپریس کے نام سے ایک ہوم ڈلیوری ریسٹورنٹ کھولیں اور انہوں نے وہی کیا بھی۔ بزنس بھی کافی اچھا چل رہا تھا اور پھر عالمی وبا نے یہ سب کچھ خراب کردیا۔ رمضان آرہے ہیں اور ہمارے پاس خریداروں کے فون آرہے ہیں کہ کاروبار دوبارہ کب شروع ہوگا اور ہم کوئی جواب نہیں دے پاتے۔ اب بس دونوں حکومتوں سے گزارش ہے کہ وہ جلد سے جلد اس مسئلہ کو حل کرے۔'

اگرچہ پاکستان فوڈ ایکسپریس اس وقت بند ہے لیکن حمزہ کے گھر پر ان کی والدہ دروازے پر نظر رکھے بیٹھی ہیں، بہن نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے، والد کو یقین ہے کہ ان کے بچے جلد واپس گھر آئیں گے اور ان کے گھر میں ایک بار پھر خوشیاں لوٹ آئیں گی۔

سنہ 2004 میں ریلیز ہوئی فلم ویر زارا جہاں بہترین ہدایت کاری، کہانی اور اداکاری کی وجہ سے پوری دنیا میں پسند کی گئی۔ وہیں اس فلم کی کہانی نے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور دونوں ممالک کے باشندگان کو ہورہی مشکلات کو بھی موضوع بحث بنایا۔ اگرچہ اس فلم کو منظر عام پر آئے 17 سال ہو چکے ہیں۔ تاہم زمینی حقائق ابھی بھی ویسے ہی ہیں۔ آج ہم آپ کو ملواتے ہیں کشمیر کے ویر زارا سے۔

سرینگر کے رہنے والے حمزہ فاروق اور لاہور کی رہنے والی ماہ نور کا نکاح سنہ 2014 میں دھوم دھام سے ہوا۔ نکاح کے بعد ماہ نور کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے آٹھ برس کا انتظار کرنا تھا۔ اس دوران وہ نوری ویزا پر اپنے شوہر کے ساتھ سرینگر میں رہتی تھیں اور ہر سال پاکستان تین مہینے کے لیے اپنے ویزا میں توسیع کرانے کے لئے جاتی تھیں۔

نوری ویزا ایک عارضی ویزا ہوتا ہے جو صرف ان خواتین کو ملتا ہے جن کا نکاح پاکستان سے باہر ہوا ہو۔ گزشتہ برس مارچ مہینے کی 2 تاریخ کو ماہ نور ہمیشہ کی طرح اپنے ملک پاکستان کے لیے روانہ ہوئی۔ تاہم انہیں دوبارہ واپس بھارت نہیں آنے دیا گیا۔ وجہ عالمی وبا کورونا وائرس اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ناسازگار تعلقات تھے۔

کشمیر کے 'ویر زارا'

حمزہ کی چھوٹی بہن سعدیہ فاروق نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'میری بھابھی اور بھائی ایک برس کے بعد امسال مارچ مہینے کی پہلی تاریخ کو دبئی میں ملے۔ میری بھابھی کو پہلے ترکی جانا پڑا کیونکہ دبئی نے پاکستان سے آنے والے شہریوں پر عالمی وبا کے پیش نظر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ آج بھائی اور بھابھی ایک ساتھ ہیں اور خوش ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارا کنبہ بکھر چکا ہے۔ کوئی دبئی میں ہے، کوئی پاکستان میں اور کوئی یہاں تو کوئی وہاں۔ ہم نے بھارتی حکومت اور پاکستانی حکومت دونوں کو لکھا، تاہم سبھی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ میری بھابھی گھر سے دور ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہو رہی تھی، اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ میرے بھائی کو ان سے ملنے دبئی جانا چاہیے۔

حمزہ اور ماہ نور کے پڑوسی اور رشہ دار ان کو اب ویر زارا کہہ کر پکارنے لگے ہیں۔

دبئی سے فون کے ذریعے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے حمزہ فاروق کا کہنا تھا کہ 'میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ہوں کہ ایک برس بعد اپنی اہلیہ سے مل کر کیسا لگا۔ مجھے امید تھی کہ اپریل کے مہینے سے دوبارہ دونوں ممالک کے درمیان عائد ٹریول پابندی ختم کر دی جائے گی لیکن عالمی وبا کورونا وائرس کے بڑھتے معاملات کے پیش نظر میری امید پست ہو رہی ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'نوری ویزا پر ملک کی دیگر ریاستوں کے رہنے والوں کو تو جانے دیا جا رہا ہے اور جموں و کشمیر پر بھی پابندی عائد ہے۔ میری اہلیہ اپنے گھر کو کافی یاد کرتی ہے۔'

سعدیہ کا کہنا ہے کہ 'میری بھابھی میری خالہ ذاد بہن بھی ہے۔ میری والدہ کی بہن کی شادی پاکستان میں ہوئی تھی۔ 2014 میں جب ہم پاکستان گئے تھے تو گھر والوں کو لگا کہ حمزہ اور ماہ نور کا نکاح کرایا جائے جس کے بعد دونوں کی رضا مندی سے یہ ممکن ہوا۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہاں آنے کے بعد میری بھابھی کوئی نوکری نہیں کر سکتی تھی کیونکہ ان کے پاس تمام ڈگری پاکستان کی تھی۔ اسی لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان فوڈ ایکسپریس کے نام سے ایک ہوم ڈلیوری ریسٹورنٹ کھولیں اور انہوں نے وہی کیا بھی۔ بزنس بھی کافی اچھا چل رہا تھا اور پھر عالمی وبا نے یہ سب کچھ خراب کردیا۔ رمضان آرہے ہیں اور ہمارے پاس خریداروں کے فون آرہے ہیں کہ کاروبار دوبارہ کب شروع ہوگا اور ہم کوئی جواب نہیں دے پاتے۔ اب بس دونوں حکومتوں سے گزارش ہے کہ وہ جلد سے جلد اس مسئلہ کو حل کرے۔'

اگرچہ پاکستان فوڈ ایکسپریس اس وقت بند ہے لیکن حمزہ کے گھر پر ان کی والدہ دروازے پر نظر رکھے بیٹھی ہیں، بہن نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے، والد کو یقین ہے کہ ان کے بچے جلد واپس گھر آئیں گے اور ان کے گھر میں ایک بار پھر خوشیاں لوٹ آئیں گی۔

Last Updated : Apr 9, 2021, 6:18 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.