سرینگر: جموں و کشمیر انتظامیہ نے پیر کے روز ڈیوٹی کے دوران غیر حاضر رہنے کی پاداش میں 112 ڈاکٹروں کو نوکریوں سے برطرف کر دیا ہے۔ ان ڈاکڑوں میں میڈیکل آفیسرز، ڈینٹل سرجنز اور کنسلٹنٹ سرجنز شامل ہیں۔ محکمہ ہیلتھ اور میڈیکل ایجوکیشن کے معتدد احکامات کے مطابق خدمات سے فارغ ہونے والوں میں میڈیکل آفیسرز، کنسلٹنٹ سرجنز اور بی گریڈ سپیشلسٹ شامل ہیں۔ حکم نامے کے مطابق ڈاکٹروں کو اپنی ڈیوٹی پر دوبارہ واپس آنے کے بارے میں کئی بار نوٹس جاری کی گئیں، تاہم وہ ڈیوٹی پر واپس نہیں آئے۔ absconding doctors terminated in jammu and kashmir
پرنسپل سکریٹری ہیلتھ اور میڈیکل ایجوکیشن منوج کمار دویدی کی جانب سے جاری کردہ آرڈرز میں کہا گیا ہے کہ ان ڈاکٹروں نے محکمے کی جانب سے کسی بھی نوٹس کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی ڈیوٹی پر واپس آنے کی کوئی اطلاع دی۔ اس پس منظر میں ان ڈاکٹروں کے معاملے کا محکمہ میں جائزہ لیا گیا، چونکہ ان ڈاکٹرز نے نوٹس جاری کرنے کے باوجود اپنی ڈیوٹی دوبارہ شروع نہیں کی اور مقرر کردہ معیاد ختم ہونے کے باوجود بھی انہوں نے نوکری جوائن کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کی طرف سے یہ عمل رضاکارانہ ہے، جس کی وجہ سے ان ڈاکٹروں کو نوکریوں سے برطرف کیا جاتا ہے۔
جارہ کردہ ایک آرڈر کے مطابق برطرف کیے گئے برطرف کردہ ڈاکٹروں میں کٹھوعہ کے ڈاکٹر راموترا روہنی کرشن (میڈیکل آفیسر) شامل ہیں جو 19 اکتوبر 2017 سے غیر حاضر ہیں۔ نانک نگر جموں کے ڈاکٹر اجے دیپ سنگھ (کنسلٹنٹ سرجن) 12 اکتوبر 2017 سے ڈیوٹی سے غیر حاضر، شیوا ڈوڈا کے ڈاکٹر عبدالحمید (میڈیکل آفیسر) 16 فروری 2018 سے غیر حاضر، اومپورہ بڈگام کے ڈاکٹر مدثر مقبول وانی (میڈیکل آفیسر)21 اگست 2018 سے غیر حاضر، النور کالونی کی ڈاکٹر صبیہ مجید (میڈیکل آفیسر) يكم جولائی 2018 سے غیر حاضر، ڈاکٹر حنیف مقبول تانترے پلہالن پٹن (میڈیکل آفیسر) 31 جنوری 2020 سے غیر حاضر، ڈاکٹر محمد شفیق ربانی ٹنگڈار کرناہ کپواڑہ (میڈیکل آفیسر) 15 اکتوبر 2019 سے غیر حاضر اور ڈاکٹر اعزاز احمد بٹ (میڈیکل آفیسر) 31 مارچ 2020 سے غیر حاضر ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ ان ڈاکٹروں کی اکثریت اصل میں پرائیویٹ سیکٹر میں زیادہ رقومات کمانے کی غرض سے ملکی یا بین الاقوامی طبی اداروں کے ساتھ منسلک ہوگئے ہیں لیکن ضابطے کے تحت اپنی سرکاری عہدوں سے استعفیٰ دائر نہین کیا ہے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ کئی ڈاکٹر متعدد برسوں تک خلیجی یا یورپی ممالک میں کام کرنے کے بعد اچانک نمودار ہوئے ہیں اور سرکاری نوکری پر دوبارہ جوائن کیا ہے تاہم حالیہ برسوں میں ایسے کئی ڈاکٹرز کو برطرف کیا گیا۔ حکام کا استدلال ہے کہ اگران ڈاکٹرز کو برطرف نہیں کیا جاتا ہے تو انکے پوسٹ کالی رہتے ہیں جس سے دو طرح کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک تو عوام کو طبی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں اور دوسری جانب روزگار کی تلاش میں سرگردان جونیئر ڈاکٹرز کو نوکری دینے کی امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ مفتی محمد سعید کی قیادت میں جب 2015 میں پی ڈی پی، بی جے پی حکومت قائم ہوئی تھی تو ایسے کئی ڈاکٹروں کو برطرف کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: