حکومت کے ترجمان روہت کنسل نے منگل کی رات اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ محترمہ محبوبہ مفتی کو رہا کیا جا رہا ہے۔ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے اپنی والدہ کی رہائی کی تصدیق اپنی ایک ٹویٹ میں کی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے۔
حکومت نے محبوبہ مفتی کو رواں برس 7 اپریل کو سب جیل ٹرانسپورٹ یارڈ سرینگر سے اپنی رہائش واقع گپکار روڈ منتقل کیا تھا جسے سب جیل قرار دیا گیا تھا۔
ساٹھ سالہ محبوبہ مفتی، جنہیں پانچ اگست 2019 کو حراست میں لیکر چشمہ شاہی کے گیسٹ ہائوس میں نظر بند کیا گیا تھا، کو گذشتہ برس نومبر کے وسط میں مولانا آزاد روڑ پر واقع سرکاری کوارٹر منتقل کیا گیا جہاں ان کے لئے سرما کے پیش نظر گرمی کا خاطر خواہ انتظام کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ محبوبہ مفتی سال 2016 میں پہلی مسلم خاتون وزیر اعلیٰ کے بطور تختہ پر براجمان ہوئی تھیں لیکن یہ عہدہ ان کے لیے نیک شگون ثابت نہیں ہوا تھا کیونکہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے روز اول سے ہی نہ صرف ہر گزرتے دن کے ساتھ محبوبہ مفتی کی سیاسی ساکھ تنزل پذیر ہوئی تھی بلکہ پارٹی میں اندورنی خلفشار آہستہ آہستہ آتش فشاں کی صورت اختیار کرتا گیا تھا جو بعد میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت کے پاش پاش ہونے کے ساتھ ہی پھٹ گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: رامپوری چاقو کی صنعت کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے؟
محبوبہ مفتی سال 1996 میں ریاست کے سیاسی افق پر جلوہ افروز ہوئی تھیں اور اسی سال جموں و کشمیر میں منعقدہ اسمبلی انتخابات میں اپنے آبائی حلقہ انتخاب بجبہاڑہ سے کانگریس کی ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ انہیں گذشتہ برس منعقد ہوئے پارلیمانی انتخابات میں اپنے پشتنی پارلیمانی حلقے سے پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس کے چند ماہ بعد جب مرکزی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 منسوخ کیں اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کیا تو علاقائی جماعتوں اور کانگریس کے درجنوں سیاسی لیڈران کو بند کیا گیا۔ رواں برس 6 فروری کو محبوبہ مفتی کے علاوہ عمر عبداللہ، نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری علی محمد ساگر اور پی ڈی پی لیڈر سرتاج مدنی پر پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا تھا۔
پی ایس اے، جس کو نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ نے جنگل اسمگلروں کے لئے بنایا تھا، کو انسانی حقوق کے عالمی نگراں ادارے 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے ایک 'غیرقانونی قانون' قرار دیا ہے۔
اس قانون کے تحت عدالتی پیشی کے بغیر کسی بھی شخص کو کم از کم تین ماہ تک قید کیا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر میں اس قانون کا اطلاق حریت پسندوں اور آزادی حامی احتجاجی مظاہرین پر کیا جاتا ہے۔ جن پر اس ایکٹ کا اطلاق کیا جاتا ہے اُن میں سے اکثر کو کشمیر سے باہر جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔