ETV Bharat / state

عدالتی فیصلہ پر کشمیر، جموں کے باشندے خوش نہیں، آزاد

جموں و کشمیر کے سابق وزراء اعلیٰ - محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد - نے دفعہ 370کی تنسیخ پر سپریم کورٹ کی مہر تصدیق کو ’’افسوس ناک‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے یہاں کے لوگوں کی خواہشات کے برعکس فیصلہ قرار دیا۔

عدالتی فیصلہ پر کشمیر، جموں کے باشندے خوش نہیں، آزاد
عدالتی فیصلہ پر کشمیر، جموں کے باشندے خوش نہیں، آزاد
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 11, 2023, 3:04 PM IST

عدالتی فیصلہ پر کشمیر، جموں کے باشندے خوش نہیں، آزاد

سرینگر (نیوز ڈیسک) : ڈیموکریٹک پراگریسیو آزاد پارٹی (ڈی پی اے پی) کے صدر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے کہا: ’’یہ (عدالت کا فیصلہ) افسوسناک اور بدقسمتی ہے، تاہم ہمیں فیصلے کو قبول کرنا ہوگا۔‘‘ نامی نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے غلام نبی آزاد نے کہا: ’’سپریم کورٹ ہی ہماری آخری امید تھی۔‘‘

ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات کرتے ہوئے غلام نبی آزاد نے کہا: ’’پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ہی دو ایسے ادارے ہیں جو دفعہ 370پر کوئی فیصلہ لے سکتے تھے، تاہم پارلیمنٹ نے ہی دفعہ 370کو منسوخ کیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ ہی ہمارا آخری سہارا تھا۔‘‘ غلام نبی آزاز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں سنائی اور اس کے بعد بحث و تبصروں میں بھی تین سے چار ماہ کا وقت لگا، مختلف وکلاء نے اپنے اپنے نقاط بیان کیے اور بالآخر آج جو فیصلہ سپریم کورٹ نے سنایا وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی امیدوں کے بر عکس ہے۔ آزاد نے کہا: ’’مجھے لگتا ہے کہ صوبہ جموں سمیت وادی کشمیر کے باشندے عدالت کے اس فیصلے سے خوش نہیں۔‘‘

مزید پڑھیں: دفعہ 370 کی تنسیخ پر سپریم کورٹ کی مہر تصدیق

قابل ذکر ہے کہ پیر کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے دفعہ 370کی منسوخی کے پارلیمنٹ اور صدر ہند کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کی تنسیخ کو جائز اور درست قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ دفعہ 370عارضی تھا جس نے آئین میں مستقل شق اختیار نہیں کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: دفعہ 370پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کشمیری لیڈران کا رد عمل

عدالتی فیصلہ پر کشمیر، جموں کے باشندے خوش نہیں، آزاد

سرینگر (نیوز ڈیسک) : ڈیموکریٹک پراگریسیو آزاد پارٹی (ڈی پی اے پی) کے صدر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے کہا: ’’یہ (عدالت کا فیصلہ) افسوسناک اور بدقسمتی ہے، تاہم ہمیں فیصلے کو قبول کرنا ہوگا۔‘‘ نامی نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے غلام نبی آزاد نے کہا: ’’سپریم کورٹ ہی ہماری آخری امید تھی۔‘‘

ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات کرتے ہوئے غلام نبی آزاد نے کہا: ’’پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ہی دو ایسے ادارے ہیں جو دفعہ 370پر کوئی فیصلہ لے سکتے تھے، تاہم پارلیمنٹ نے ہی دفعہ 370کو منسوخ کیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ ہی ہمارا آخری سہارا تھا۔‘‘ غلام نبی آزاز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں سنائی اور اس کے بعد بحث و تبصروں میں بھی تین سے چار ماہ کا وقت لگا، مختلف وکلاء نے اپنے اپنے نقاط بیان کیے اور بالآخر آج جو فیصلہ سپریم کورٹ نے سنایا وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی امیدوں کے بر عکس ہے۔ آزاد نے کہا: ’’مجھے لگتا ہے کہ صوبہ جموں سمیت وادی کشمیر کے باشندے عدالت کے اس فیصلے سے خوش نہیں۔‘‘

مزید پڑھیں: دفعہ 370 کی تنسیخ پر سپریم کورٹ کی مہر تصدیق

قابل ذکر ہے کہ پیر کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے دفعہ 370کی منسوخی کے پارلیمنٹ اور صدر ہند کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کی تنسیخ کو جائز اور درست قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ دفعہ 370عارضی تھا جس نے آئین میں مستقل شق اختیار نہیں کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: دفعہ 370پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کشمیری لیڈران کا رد عمل

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.