وہیں اس فلم میں یہاں کی اکثریتی آبادی کو غلط طریقے سے پیش کرنے سے جزبات مجروح ہو رہے ہیں۔ ان باتوں کا اظہار جے ڈی یو کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر جی ایم شاہین نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کے سنہ 1990 میں وادی کشمیر سے ہجرت پر منبی فلم شکارہ سے وادی کشمیر میں مسلمانوں کے رول کو منفی انداز میں پیش کرکے نہ صرف امن و قانون کی صورتحال میں بگاڑ پیدا کرنے بلکہ یہاں کے ہندو مسلم سکھ اتحاد اور صدیوں پرانے آپسی میل ملاپ میں دراڈ ڈالنے کی پھر سے کوشش کی جارہی ہے۔
شاہین نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اگرچہ 5 اگست کے بعد وادی کشمیر میں معمولات اب دھیرے دھیرے بحال ہورہے ہیں لیکن 'شکارہ 'فلم میں فرقہ ورانہ مواد شامل کرنے سے یہاں کے امن و قانون کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
وہیں مسلمانوں کو انتہائی منفی انداز میں پیش کرنے سے یہاں آپسی منافرت پھیل سکتی ہے۔ اس صورتحال کے بیچ انہوں نے مرکزی حکومت سے اپیل کی کہ ملک کے تمام سنیما گھروں میں 'شکارہ' فلم دکھانے پر پابندی عائد کی جانی چائیے۔ جی ایم شاہین نے کہا کہ ایسی فلمیں بنانے والے ڈائکٹریٹر پر بھی پابندی عائد کرنی چاہیے۔
وہیں پریس کانفرنس کے دوران جی ایم شاہین نے حکومت پر زوردیا کہ جموں و کشمیر میں تنظیم نو کے بعد معشیت کو ہوئے نقصانات کی بھر پائی کے لیے مالی بیکیچ کا اعلان کیا جانا چائے تاکہ تجارت پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات سے منسلک افراد کی مالی معاونت کی جا سکے.
ایک سوال کے جواب میں جے ڈی یو جموں و کشمیر کےصدر نے سابق وزرائے اعلی پر پی ایس اے عائد کرنے کو افسوس تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی کے ملک میں ہر ایک کو اپنی بات کرنے کا حق ہے وہیں وادی کشمیر میں اس طرح کی حرکتوں سےمزید سیاسی خلاء پیدا ہوسکتا ہے جو جمہوریت کے منافی ہے۔
اس موقعے پر 2018 میں مسز انڈیا انٹر نیشنل رہ چُکی کولگام ضلع کی دوشیزہ نصرت پروین زرگر اور ان کے خاوند نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
واضح رہے کہ فلم 'شکارہ' کی ریلیز روکنے کے لیے درخواست جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں عرضی دائر کر دی گئی تھی، تاہم ہائی کورٹ نے عرضی کو خارج کر دیا ہے۔
فلم کی ریلیز کے خلاف مفاد عامہ کی عرضی دائر کرنے والے کشمیری جہدکاروں افتخار حسین مسگر (سابق نیشنل کانفرنس لیڈر)، ماجد حیدری (صحافی) اور عرفان حفیظ لون (وکیل) کا مفاد عامہ کی عرضی میں کہنا ہے کہ ودھو ونود چوپڑا کی فلم شکارہ میں فرقہ وارانہ مواد شامل ہے اور اس میں کشمیری مسلمانوں کو انتہائی منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
تاہم گزشتہ روز جسٹس اے ایم ماگرے اور ڈی ایس ٹھاکر پر مشتمل ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بینچنے مرکز اور جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے کے وکیلوں کی جانب سے دلائی گئی ، اِس یقین دہانی کے بعد اِن عرضداشتوں کو خارج کیا کہ اس فلم کی ریلیز سے امن و قانون کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
فلم جمعہ کو ریلیز ہوئی۔ یہ فلم کشمیری پنڈتوں کی سن 1990 میں وادی کشمیر سے ہجرت پر مبنی ہے۔