جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ کے بیان کے بعد بی جے پی نے کہا کہ 'ایک رکن پارلیمان کا ایسا بیان ملک کے لیے باعث شرم ہے۔'
بھارتیہ جنتا پارٹی نے کہا کہ 'فاروق عبداللہ کا دفعہ 370 کی منسوخی سے متعلق چین کو ملک کے اندرونی معاملے میں شامل کرنے والا بیان قابل مذمت ہے۔'
بی جے پی کے جنرل سیکریٹری اشوک کول نے پارٹی دفتر سرینگر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'پورا ملک اس وقت چین کے خلاف حکومت کی حمایت کررہا ہے اور فاروق عبداللہ رکن پارلیمان ہونے کے باوجود ایسے بیانات دے رہے ہیں، یہ انتہائی حیران کن ہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'بی جے پی ان کے اس بیان کی شدید مذمت کرتی ہے اور یہ بیان ہر کسی کے لیے ناقابل قبول ہے'۔
وہیں دوسری جانب جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر نے فاروق عبداللہ کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا 'جموں و کشمیر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ملک کے پاس قیادت و لیاقت اور اہلیت سب کچھ ہے'۔
انہوں نے کانگریس کے صدر دفتر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ' ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے نیشنل کانفرنس کے صدر ہونے کی حیثیت سے یہ بیان دیا ہے۔ کانگریس ملک کے اندرونی معاملات میں کسی بھی دوسرے ملک کی مداخلت کے حق میں قطعی نہیں ہے'۔
وہیں بے جی پی کے قومی ترجمان سمبت پاترا نے کہا 'فاروق عبد اللہ کا بیان افسوسناک ہے۔ پاکستان اور چین کے لیے ان کا رویہ ہمیشہ سے ہی نرم رہا ہے۔ فاروق عبداللہ اور راہل گاندھی ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ دونوں رہنما ملک کے مفاد کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں'۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے جموں کشمیر کے صدر رویندر رینہ نے کہا 'دنیا کی کوئی طاقت دفعہ 35اے اور 370 کو اب دوبارہ جموں کشمیر میں بحال نہیں کرسکتی'۔
انہوں نے کہا 'وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ کی حکومت میں اس قانون کو ختم کیا گیا ہے اور فاروق عبداللہ کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ تاریخ میں کھبی بھی دفعہ 370 اب واپس نہیں آسکتا'۔
واضح رہے کہ اتوار کے روز ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ چین کی مدد سے جموں و کشمیر کی منسوخ شدہ خصوصی حیثیت بحال ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے
سرینگر: رام باغ میں انکاؤنٹر، دو عسکریت پسند ہلاک
موجودہ وقت میں مرکز کے زیر انتظام لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی جاری ہے، بھارت کی جانب سے مختلف قسم کے لڑاکو طیارے بھی لداخ ہوائی اڈے پر اتارے گئے ہیں۔ وہیں دوسری طرف چین کی جانب سے بھی سرگرمیاں جاری ہیں۔