ETV Bharat / state

سرکاری زبانوں میں اضافے کا فیصلہ غیر حقیقت پسندانہ: فاروق عبداللہ

نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے سرکاری زبانوں میں اضافے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ ہمیں بانٹنے کے لئے کیا جارہا ہے۔

فاروق عبداللہ
فاروق عبداللہ
author img

By

Published : Sep 12, 2020, 10:34 PM IST

انہوں نے کہا کہ اگر سرکاری زبانوں میں اضافہ کرنا ہی تھا تو پھر پنجابی، گوجری اور پہاڑی کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ جموں و کشمیر میں یہ زبانیں بولنے والے بھی بے شمار لوگ موجود ہیں۔

این سی ترجمان کے مطابق فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار پارٹی اقلیتی سیل کے ایک وفد کے ساتھ ہفتے کو یہاں اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کے دوران کیا ہے۔

اس موقعے پر پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، ٹریجرر شمی اوبرائے اور مشتاق گورو موجود تھے۔

اقلیتی سیل کے آرگنائزر سردار جگدیش سنگھ آزاد کی قیادت میں آئے وفد میں سری نگر، بڈگام، بارہمولہ، اننت ناگ اور پلوامہ کے اقلیتی سیل کے اراکین شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لکھنؤ کی تاریخی ریزیڈنسی، کھنڈرات میں تبدیل


وفد نے اس موقعے پر کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام نے ہمیشہ ہند مسلم سکھ اتحاد کی مشعل کو فروزاں رکھا ہے اور مستقبل میں بھی اسی اصول پر قائم و دائم رہیں گے۔

وفد نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے مرکزی حکومت کے یک طرفہ فیصلوں کے ذریعے ہمارے حقوق سلب کئے گئے۔ ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی تینوں خطوں کے عوام تشویش اور تذبذب میں مبتلا ہیں۔ جموں اور لداخ کے عوام کو بھی اب محسوس ہوگیا ہے کہ 5 اگست کے فیصلوں سے ہم پر کون سے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ان اقدامات سے مستقبل میں کیا تباہی ہوگی۔ جمو ں وکشمیر اور لداخ کے عوام کو کسی بھی صورت میں مرکزی حکومت کے فیصلہ ناقابل قبول ہیں۔

فاروق عبداللہ کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لئے شروع کی گئی مشترکہ جدوجہد کی بھر پور تائید کرتے ہوئے وفد نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے یک زبان ہوکر گپکار اعلامیہ کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے نظریں گپکار اعلامیہ پر مرکوز ہیں اور عوام اس اتحاد کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔

وفد نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بعد پیدا شدہ صورتحال اور کورونا وائرس سے یہاں کے لوگ حد سے زیادہ متاثر ہوگئے ہیں۔ اقتصادی بدحالی نے لوگوں کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور بے روزگاری عروج پر پہنچ گئی ہے۔ 5 اگست کے بعد مرکزی حکومت نے جو بھی فیصلے لئے وہ کسی بھی صورت میں جموں و کشمیر کے عوام کے مفاد میں نہیں ہوسکتے ہیں۔

وفد نے کہا کہ مرکزی حکومت نے حال ہی میں جموں وکشمیر میں سرکاری زبانوں میں اضافہ کیا اور اس میں امتیازی سلوک روا رکھ کر پنجابی کو نظرانداز کیا گیا۔

وفد نے مطالبہ کیا کہ پنجابی کو بھی سرکاری زبانوں میں شامل کیا جانا چاہئے۔ فاروق عبداللہ نے اقلیتی سیل کے وفد کا گپکار اعلامیہ کی تائید کرنے پر شکریہ ادا کیا گیا اور کہا کہ ہماری جدوجہد چیلنجوں سے بھری ہوئی ہے اور ہمیں اس دوران اتحاد کا مظاہرہ کرکے ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں توڑنے اور بانٹنے کی کوششیں کی جائیں گی لیکن ہمیں متحد رہ کر ان مذموم اور ناپاک کوششوں کو ناکام بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگر سرکاری زبانوں میں اضافہ کرنا ہی تھا تو پھر پنجابی، گوجری اور پہاڑی کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ جموں و کشمیر میں یہ زبانیں بولنے والے بھی بے شمار لوگ موجود ہیں۔

این سی ترجمان کے مطابق فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار پارٹی اقلیتی سیل کے ایک وفد کے ساتھ ہفتے کو یہاں اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کے دوران کیا ہے۔

اس موقعے پر پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، ٹریجرر شمی اوبرائے اور مشتاق گورو موجود تھے۔

اقلیتی سیل کے آرگنائزر سردار جگدیش سنگھ آزاد کی قیادت میں آئے وفد میں سری نگر، بڈگام، بارہمولہ، اننت ناگ اور پلوامہ کے اقلیتی سیل کے اراکین شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لکھنؤ کی تاریخی ریزیڈنسی، کھنڈرات میں تبدیل


وفد نے اس موقعے پر کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام نے ہمیشہ ہند مسلم سکھ اتحاد کی مشعل کو فروزاں رکھا ہے اور مستقبل میں بھی اسی اصول پر قائم و دائم رہیں گے۔

وفد نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے مرکزی حکومت کے یک طرفہ فیصلوں کے ذریعے ہمارے حقوق سلب کئے گئے۔ ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی تینوں خطوں کے عوام تشویش اور تذبذب میں مبتلا ہیں۔ جموں اور لداخ کے عوام کو بھی اب محسوس ہوگیا ہے کہ 5 اگست کے فیصلوں سے ہم پر کون سے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ان اقدامات سے مستقبل میں کیا تباہی ہوگی۔ جمو ں وکشمیر اور لداخ کے عوام کو کسی بھی صورت میں مرکزی حکومت کے فیصلہ ناقابل قبول ہیں۔

فاروق عبداللہ کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لئے شروع کی گئی مشترکہ جدوجہد کی بھر پور تائید کرتے ہوئے وفد نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے یک زبان ہوکر گپکار اعلامیہ کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے نظریں گپکار اعلامیہ پر مرکوز ہیں اور عوام اس اتحاد کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔

وفد نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بعد پیدا شدہ صورتحال اور کورونا وائرس سے یہاں کے لوگ حد سے زیادہ متاثر ہوگئے ہیں۔ اقتصادی بدحالی نے لوگوں کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور بے روزگاری عروج پر پہنچ گئی ہے۔ 5 اگست کے بعد مرکزی حکومت نے جو بھی فیصلے لئے وہ کسی بھی صورت میں جموں و کشمیر کے عوام کے مفاد میں نہیں ہوسکتے ہیں۔

وفد نے کہا کہ مرکزی حکومت نے حال ہی میں جموں وکشمیر میں سرکاری زبانوں میں اضافہ کیا اور اس میں امتیازی سلوک روا رکھ کر پنجابی کو نظرانداز کیا گیا۔

وفد نے مطالبہ کیا کہ پنجابی کو بھی سرکاری زبانوں میں شامل کیا جانا چاہئے۔ فاروق عبداللہ نے اقلیتی سیل کے وفد کا گپکار اعلامیہ کی تائید کرنے پر شکریہ ادا کیا گیا اور کہا کہ ہماری جدوجہد چیلنجوں سے بھری ہوئی ہے اور ہمیں اس دوران اتحاد کا مظاہرہ کرکے ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں توڑنے اور بانٹنے کی کوششیں کی جائیں گی لیکن ہمیں متحد رہ کر ان مذموم اور ناپاک کوششوں کو ناکام بنانا ہوگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.