سرینگر: اسکولی تعلیم کے محکمے نے ایک حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلاح عام ٹرسٹ کی نگرانی میں چلنے والے تمام مدارس میں تعلیمی سرگرمیاں بند کردی گئی ہیں۔ حکام کے مطابق یہ ٹرسٹ سیاسی اور سماجی تنظیم جماعت اسلامی کا ایک ذیلی ادارہ ہے جس پر 2017 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔
پابندی کا یہ حکم نامہ جموں وکشمیر پولیس کی ریاستی تحقیقاتی ایجسنی کی طرف سے کئی گئی تحقیقیات کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔ جس میں جماعت اسلامی کے زیر سایہ اور فلاح ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی کاموں اور سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے ۔ جماعت اسلامی جو کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت پہلے ہی ممنوع قرار دی گئی ہے۔
فلاح عام ٹرسٹ کالعدم تنظیم جماعت اسلامی کا قائم کردہ ایک ٹرسٹ ہے جو 31 جولائی 1962 سے ہے جو کہ سرکاری آرڈر نمبر 169/72 کے تحت رجسٹرڈ ہے۔
فلاحی ٹرسٹ سے منسلک اسکولوں میں جموں وکشمیر محکمہ تعلیم اور بورڈ آف اسکول ایجوکیشن تسلی شدہ کتابیں اور تجویز شدہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مذکورہ اسکولوں میں اسلامک اسٹڈیز اور عربی بھی پڑھایا جاتا ہے وہیں ان مذکورہ اسکولوں میں دو دہائی سے پری پرائمری سطح پر انگریزی بھی پڑھائی جارہی ہے۔
28 فروری2019 کو جب مرکزی وزارت داخلہ نے جماعت اسلامی جموں وکشمیر پر عسکریت پسندوں کے ساتھ قریبی رابطے کی بنیاد پر پابندی عائد کی تو پولیس اور مجسٹریٹ نے جماعت اسلامی کے دفاتر کو سیل کردیا اور ان اسکولوں کو بھی بند کرنے کا نوٹس جاری کردیا گیا جو کہ فلاحی ٹرسٹ کے تحت چل رہے تھے،لیکن بعد میں حکومت نے وضاحت جاری کی کہ ان اسکولوں کو بند نہیں کیا جائے گا۔
1972 سے قبل جماعت اسلامی اپنے کئی اسکول چلا رہا تھا جو کہ فلاح ادارے کے زیر نگرانی تھے،لیکن آج مذکورہ ٹرسٹ کے 3 سو سے زائد اسکول مذکورہ ٹرسٹ کے زیر انتظام اپنی تعلیمی اور تدریسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔وہیں ان اسکولوں میں ایک لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہے اور 5 ہزار سے زیادہ اساتذہ تدریسی کام انجام دے رہے ہیں۔
ماضی میں مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی حکومت میں بھی ان اسکولوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ شیخ عبداللہ نے بھارت میں اندرا گاندھی کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے فوراً بعد اس کا اطلاق جموں و کشمیر میں بھی کیا تھا جس کے بعد جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
واضح رہے 1990 میں بھی اس وقت کی گورنر انتظامیہ نے جماعت اسلامی کے زیر اثر اور فلاحی ٹرسٹ کے نگرانی ان اسکولوں پر پابندی عائد کی تھی تاہم بعد میں فلاحی ٹرسٹ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عائد پابندی کو ختم کروایا۔
جموں وکشمیر حکام کا دعویٰ ہے کہ کالعدم تنظیم جماعت اسلامی نے فلاح عام ٹرسٹ کے نام پر چل رہے اسکولوں ،یتیم خانوں اور دیگر خیراتی اداروں کے وسیع نیٹ ورک سے پیسے حاصل کئے تھے اور انہی رقومات کی بنیاد پر 2008 ،2010 اور 2016 میں مذکورہ اداروں نے بڑے پیمانے پر بدامنی پھیلانے اور امن ا مان میں خلل پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ واضح رہے کہ 2008 میں کشمیر میں امرناتھ شرائن بورڈ کو سرکاری اراضی فراہم کرنے، 2010 میں شہری ہلاکتوں اور 2016 میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ہوئے تھے۔ ان مظاہروں کو توڑنے کیلئے حکام نے طاقت کا استعمال کیا جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ 2010 اور 2016 میں پیلٹ گنز کے استعمال سے سینکڑوں افراد کو کلی یا جزوی طور بینائی سے بھی محروم ہوئے۔
تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق 300 سے زائد ٹرسٹ اسکول غیر قانونی طور حاصل کی گئی سرکاری زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں اور ریونیو محکمے کے افسران کی ملی بھگت سے زمین کی جعلی دستاویزات بھی بنائی گئی ہیں۔ حکام نے گزشتہ کئی ماہ سے جن تعلیمی اداروں کے بارے میں ایک وسیع سروے شروع کی تھی جس میں ان کے زیر استعمال اراضی کی نوعیت کے بارے میں دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔
واضح رہے ایس آئی اے نے اس معاملے کے تعلق سے ایف آئی آر درج کیا ہے اور ایجسنی مزید تحقیقات عمل میں لارہی ہے۔