جسٹس حسنین مسعودی نے کہا کہ جب تک نہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کیا جائے تب تک اسمبلی حلقوں کی حد بندی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے اور ابھی تک جو بھی فیصلے لیے گئے ہیں وہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیرمیں حد بندی کے حوالے سے جو کمیشن بنایا گیا اور نیشنل کانفرنس کے ممبر پارلیمان کو ایسوسی ایٹ ممبران کے بطور نامزدگی عمل میں لائی گئی ہے، اس حوالے سے حد بندی کمیشن میں این سی ممبران کا کیا رول رہے گا۔ اس پر ابھی تک پارٹی کی جانب سے کوئی بھی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے'۔
جسٹس حسین مسعودی نے کہا کہ اگرچہ پارٹی کا موقف سامنے آنے میں کچھ وقت لگ سکتا۔ تاہم جہاں تک ان کی ذاتی رائے کا تعلق ہے۔ کمیشن میں ان کا کوئی رول ہی نہیں بنتا ہے کیونکہ گزشتہ سال 5 اگست کے بعد مرکزی سرکار کی جانب سے جو بھی فیصلے لئے گئے وہ غیر قانونی ہیں۔
انہوں کہا کہ نیشنل کا پہلے ہی یہ موقف رہا ہے کہ جب تک جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی حثیت بحال نہیں کی جاتی تب تک نیشنل کانفرنسں کو مرکز کا کوئی بھی فیصلہ قابل قبول نہیں ہے۔
جسٹس مسعودی نے کہا جس بنیاد پر مرکز حدبندی کروانا چاہتی ہے وہ اس وقت غیر جمہوری اور غیر آئینی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نےکہاکہ پارٹی نے گزشتہ سال 4اگست کو ہی اپنا موقف واضح کیا ہے اور اس حوالے عدالت اعظمی میں پارٹی کی جانب سے دائر عرضی بھی زیر سماعت ہے۔
بات چیت کے دوران جسٹس حسین مسعودی نے نمائندے کے ایک سوال کے جواب میں کہا 'پہلے مرکزی حکومت وسیع اور فراخ دلی کا مظاہرہ کر کے جموں کی خصوصی پوزیشن 370 او 35 اے کو بحال کریں۔تب اسمبلی انتخابات اور اس طرح حد بندی کا فیصلہ کوئی معنی یا مطلب رکھ سکتا ہے'۔
انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ 'جموں وکشمیر کو یوٹی بنائے جانے کے بعد مرکزی کی طرف سے کی جارہی ترقی کہا ہے ۔کہا بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار'۔