گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں تقریباً 24 سال بعد جیل سے رہا ہونے کے بعد سرینگر شہر کے رہنے والے نوجوان آج ایک برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اپنی زندگی دوبارہ سنوارنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔
سنہ 1996 میں سرینگر شہر کے رہنے والے محمود علی بٹ، مرزا ناصر حسین اور لطیف احمد وازہ کو دہلی کے علاج پر نگر علاقے میں ہوئے دھماکے میں ملوث ہونے کے الزامات پر حراست میں لیا گیا تھا۔
تاہم تقریباً 24 سال بعد راجستھان کی عدالت عالیہ نے گزشتہ برس 22 جولائی کو انہیں بے قصور قرار دے کر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ 25 جولائی کو یہ تینوں سرینگر پہنچے اور عوام نے ان کا پرخلوص استقبال کیا۔
علی محمد بٹ کو جہاں ممبئی کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے مالی امداد کر کے دوبارہ سے زندگی بسر کرنے کی راہ ہموار کی۔ وہیں حسین اور وازہ آج بھی اپنی زندگی کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سرینگر کے خانقاہ معلیٰ علاقے کے رہنے والے مرزا نثار حسین کا کہنا ہے کہ 'جیل کی زندگی باہر کی زندگی سے بہتر تھی۔ ہم چار دیواری کے اندر قید تھے لیکن روحانی عذاب نہیں تھا۔ ہم اس امید کے ساتھ اپنے دن کاٹ رہے تھے کے واپس کشمیر لوٹیں گے اور اپنے ساتھیوں کے تعاون سے دوبارہ اپنی زندگی کی ایک نئی شروعات کریں گے۔ لیکن ایسا ہو نہیں پایا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جیل سے رہا ہونے کے بعد جب ہم کشمیر پہنچے تو سب نے ہمارا استقبال کیا، گلے لگایا۔ غیر سرکاری تنظیمیں بھی یہاں آئیں اور مدد کی یقین دہانی بھی کی لیکن پھر کچھ نہیں ہوا۔ ان کے دعوے صرف باتیں بن کر رہ گئیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہماری رہائی کے دس دن بعد ہی جموں و کشمیر میں سخت پابندیاں عائد کی گئیں پھر امثال مارچ کے مہینے میں عالمی وبا کے پیش نظر لاک ڈاؤن عائد کیا گیا۔ ہم کرتے بھی تو کیا کرتے۔ ہم زیرو ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے'۔
یہ بھی پڑھیے
'کشمیر میں کرکٹ کو فروغ دینا چاہتا ہوں'
حسین کے پڑوسی اور قید و بند کی صعوبتیں ایک ساتھ ساتھ برداشت کرنے والے لطیف احمد وازہ کا ماننا ہے کہ 'کشمیر کافی بدل چکا ہے۔ روایتی بھائی چارے کا فقدان ہے، محلہ انتظامیہ اتنی پیش پیش نہیں ہے اور اوپر سے پانچ اگست کے بعد مسلسل پابندیوں نے ہمارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے'۔
ان کا کہنا ہے کہ 'ہم جیل میں ہی ٹھیک تھے۔ جب ہم رہا ہوئے تو ہماری خیر خبر پوچھنے دوست اور رشتہ دار جوق در جوق آتے رہے۔ مدد کی یقین دہانی بھی کی گئی لیکن حقیقت میں کچھ نہیں ہوا۔ میں مسلمان ہوں ورنہ میں نے کب کی خودکشی کر لی ہوتی۔ ہمیں نہ تو کوئی سمجھ پاتا ہے نہ ہمیں وادی کا بدلہ ہوا ماحول سمجھ آتا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ میں حسین کے ساتھ مل کر چھوٹا موٹا کاروبار شروع کروں لیکن جن سے امیدیں تھیں ان کا ساتھ نہیں ملا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے خوشی ہے کہ ہمارے تیسرے ساتھی محمد علی کو ایک ممبئی کی غیر سرکاری تنظیم نے مدد کی اور وہ دوبارہ سے کام کاج شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایسی مدد ہمیں کسی نے فراہم نہیں کی۔ 5 اگست کے بعد خطے میں پابندیاں اور پھر عالمی وبا کووڈ 19 کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم کچھ نہیں کر پائے'۔
یہ بھی پڑھیے
قید و بند میں باپ، روتے بلکتے بچوں کی انتظامیہ سے فریاد
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہماری حالت ایسی ہو گئی ہے جب رشتہ دار ہمارے گھر خیر خبر پوچھنے آتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ ہمیں طعنے مار رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، آپ کیا کرتے ہو؟ کیا کرنا ہے؟۔ یہ سوال سوئی کی طرح چبتے ہیں۔ کہیں نکاح کی بات چل رہی ہو تب بھی یہی سوال پوچھے جاتے ہیں۔ ہم کیا جواب دیں؟۔