سرینگر: یوں تو کشمیر کی خواتین ہر شعبہ میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ لیکن فیشن انڈسٹری میں کشمیری لڑکیوں کا آنا ایک نیا تجربہ ہے۔ وہیں فیشن بلاگر، کنٹینٹ کریٹر اور انفلوئنسر کے طور پر معاشرے میں اپنی پہچان بنانا کوئی آسان کام بھی نہیں ہے۔ شاذیہ بھٹ کشمیر کی ایسی خاتون ہیں جنہوں نے فیشن پروموٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے اپنی انجینئرنگ کی نوکری ہی چھوڑ دی۔ فیشن کے جنون نے انہیں اپنے پیشہ کو الوداع کہہ کر کشمیر واپس لوٹنے پر مجبور کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
شاذیہ کے لیے یہ فیصلہ کسی بھی صورت آسان نہیں تھا. تاہم انہوں نے ہمت اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ابتدائی طور پر اپنے موبائل سے ہی چھوٹے چھوٹے ویڈیوز بنانا شروع کیے اور بعد میں انہیں انسٹاگرام کے ذریعہ پہلی مرتبہ میک اپ پروموشن کرنے کا موقع ملا۔ ایسے میں نہ صرف ان کے کام کو پسند کیے جانے لگا بلکہ شاذیہ کو یہاں کے نامور برانڈز کی جانب سے بھی پروموشن کے لیے آفرز آنے لگے۔
کریئر بنانے کے لیے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا
سرینگر کی رہنے والی 27 سالہ شاذیہ بھٹ نے ابتدائی تعلیم سرینگر سے ہی حاصل کی جب کہ دلی میں اپنی انجنیئرنگ کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد یہ دو سال تک کوالٹی انجنئیر کے بطور راجستھان میں کام بھی کرچکی ہے۔ لیکن بچن سے ہی فیشن انڈسٹری میں دلچسپی نے انہیں بطور انفلوئنسر اور پروموٹر کے طور پر سامنے لایا۔ شاذیہ بھٹ کہتی ہیں کہ خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں پہلے پہل انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ برانڈ پروموشن کا چلن کشمیر میں نہیں تھا اور شروعات میں گھر والوں نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ کیونکہ انہیں دن بھر فون اور کیمرہ لےکر رہنا، آوارہ گردی اور وقت کا ضیاع لگتا تھا۔ لیکن آج میں انسٹاگرام اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر مختلف برانڈڈ کی پروموٹر ہوں۔ وہیں اچھی کمائی کے ساتھ اب والدین بھی برانڈ پروموشن کے کام کو سمجھ چکے ہیں۔
بعض حلقوں کی سخت تنقید کی وجہ سے سوشل میڈیا کے ذریعہ روزگار کمانا چلینج سے بھرا ہے۔ کیونکہ یہاں کا معاشرہ ابھی فیشن انڈسٹری کو لڑکیوں کے روزگار کے طور پر تسلیم نہیں کررہا ہے۔ شاذیہ کی رائے میں اگر ایک دائرہ میں کام کیا جائے تو سوشل میڈیا ایسا ذریعہ ہے جس سے لڑکیاں اپنا روزگار بہتر اور عزت سے کما سکتی ہیں۔ شازیہ اپنے گھر کے علاوہ اسٹوڈیوز میں پروموشن ویڈیوز شوٹ کرتی رہتی ہیں۔ وہیں ڈیمانڈ کے مطابق آؤٹ ڈور جاکر بھی ویڈیوز بناتی ہیں۔