سرینگر (نیوز ڈیسک) : قربانی مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی فریضہ ہے جو نہ صرف سنت ابراہمی علیہ السلام کی عظیم یاد تازہ کرتی ہے بلکہ ایثار و قربانی اور مستحقین کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا درس بھی دیتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالی کو نہ تو قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی اسے اس کی ضرورت ہے۔ مگر فلسفہ قربانی یہ ہے کہ اللہ کو مسلمانوں کا تقوی مطلوب ہے اور اسی تقوی کی بنیاد پر قربانی کی سنت ادا کرنے کا حکم ہے۔ ’’فلسفہ قربانی اور احکام‘‘ کے موضوع پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے عالم دین مولانا محمد سعید الرحمان شمس سے گفتگو کی۔
مولانا محمد سعید الرحمان شمس نے قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’امت محمدی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ السلام) کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ خصوص انعام حاصل ہے کہ ان کے لئے قربانی کا گوشت حلال کر دیا گیا ہے اور اسے کھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ عید قربان صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتی ہے بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشات کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ 10ذی الحجہ وہ تاریخی، مبارک اور عظیم الشان قربانی کی یاد کا دن ہے۔ جب حضرت ابراہم علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم الہی کی خاطر قربان کرنے کے لئے ایسا قدم اٹھایا کہ آج بھی منشائے خداوندی کی تعمیل پر چشم فلک حیران ہے۔ جبکہ دوسری طرف فرما نبرداری و جانثاری کے پیکر آپ علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے رضا مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی گردن اللہ کے حضور پیش کرکے قربانی کے تصویر کو ہمیشہ کے لئے امر کرنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود رضا بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئی۔ ان دونوں کی فرمانبرداری اور قربانی کو اس وقت رب تعالی نے شرف قبولیت بخشا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ بھیج دیا۔ جسے رضائے خداوندی کے لیے ذبح کیا گیا۔
اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ ، اعلی اور افضل ہے۔ تاجدار کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت ابراہمی یعنی قربانی کا جو تصور دیا وہ اخلاص اور تقوی پر زور دیتا ہے۔ قربانی اور تقوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ حدیث کی روشنی میں محمد سعید الرحمان شمس نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حالات تنگ ہونے کے باوجود قربانی کے حکم کے بعد سے کسی ایک سال بھی قربانی نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ عیدگاہ کے قریب بھی نہ جائیں۔ اس نوعیت کی وعید واجب چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے۔ لہذا اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ صاحب استطاعت ہیں تو ہر صاحب استطاعت کو قربانی کرنی چائیے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانی کیا ہے‘‘ یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کی ’’تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور طریقہ ہے۔ ‘‘ صحابہ نے عرض کیا ’’ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’(جانور کے) ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی یعنی قربانی کے جانور کی کھال پر موجود بالوں کے برابر نیکی ملے گی۔‘‘
مزید پڑھیں: Dr. Saud Alam on Eid al-Adha قربانی کا تعلق انسانوں کی ابتدائی تاریخ سے، پروفیسر سعود عالم
قرآن وحدیث کی روشنی میں مولانا نے کہا کہ ’’قربانی کے گوشت کے تیں حصے کئے جائیں تو بہتر ہے۔ ایک حصہ اپنے لیے دوسرا حصہ رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا حصہ غرباء و مساکین کے لئے۔ لیکن اس طرح تین حصے کرنے ضروری بھی نہیں ہیں۔