جموں و کشمیر پولیس نے بدھ کے روز دعویٰ کیا کہ وادی میں عسکریت پسندی کو منشیات کا کاروبار فروغ دے رہا ہے۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس (کشمیر) وجے کمار نے آج ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ "منشیات نہ صرف وادی کے نوجوانوں کی زندگی تباہ و برباد کر رہا ہے بلکہ عسکریت پسندی کو بھی بڑھاوا دے رہا ہے۔ وادی کشمیر میں عسکریت پسندی کو بڑھاوا دینے کے لئے لائن آف کنٹرول کے اُس پار سے کروڑوں روپے کے منشیات درآمد کیے جا رہے ہیں۔ ان منشیات کو ملک کے کئی حصوں میں فروخت کیا جاتا ہے اور حاصل کی گئی رقم عسکریت پسندی پر صرف کی جاتی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ "گزشتہ چھ مہینوں میں پولیس نے 496 کلو گرام منشیات ضبط کیا ہے اور اس کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف 304 معاملے درج بھی کیے ہیں۔ تمام معاملات پر مزید کاروائی جاری ہے۔"
کمار کا مزید کہنا تھا کہ "حال ہی میں شمالی کشمیر کے ہندوارہ اور کپوارہ میں منشیات کے دو ماڈل بے نقاب کئے گئے۔ جہاں سے 100 کروڑ روپے کی ہیروئن کے ساتھ ساتھ 1.37 کروڑ روپے نقدی بھی ضبط کی گئے۔ ان دونوں معاملوں کی تحقیقات اب قومی تحقیقاتی ایجنسی کو دی جا رہی ہے کیونکہ ان میں ملک کے دیگر ریاستوں سے بھی افراد ملوث ہے۔"منشیات کے بڑھتے کاروبار کے خلاف کڑی کاروائی کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "باوثوق ذرائع سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ سری نگر شہر میں لڑکیاں منشیات کا کاروبار کرتی ہیں۔ یہ لڑکیاں اسکول، کالجز اور دیگر عوامی جگہوں پر نوجوانوں کو منشیات فروخت کرتی ہیں۔ میں نے شہر کے تمام پولیس اسٹیشنوں کے ذمہ داروں کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے سخت سے سخت کارروائی کریں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر نوجوان پہلے منشیات کا شکار ہوتے ہیں اس کے بعد عسکریت پسندی کا رخ کرتے ہیں۔ منشیات عسکریت پسندی کو آکسیجن فراہم کرتی ہے۔"آج صبح سوپور علاقے میں ہوئے عسکری حملے کے دوران ایک عام شہری کی موت پر لواحقین کی جانب سے سی آر پی ایف پر لگائے گئے الزام کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "تمام دعوے بے بنیاد ہیں۔ ہلاک شدہ شہری کے رشتےدار عسکریت پسندوں کے دباؤ میں آکر یہ بیان دے رہے ہیں۔ اگر کوئی گواہ ہے تو وہ سامنے آئے ہم ضرور کاروائی کریں گے۔"