وادی کشمیر میں آئے روز ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہیں اعصابی تناؤ اور بوجھ کے نیتجے میں انتہائی اقدام اٹھانے کا رجحان بھی روزبروز بڑھتا جارہا ہے۔
نوجوانوں میں چند برسوں کے دوران بڑھتی نفسیاتی تکالیف میں اضافے، اس کی وجوہات اور علاج کے علاوہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اس بیماری سے دور رکھنے کے لیے کس طرح کے اقدامات سماجی اور گھریلو سطح پر اٹھانے کے ضرورت ہے۔ اس پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویزالدین نے وادی کی معروف سائیکالوجسٹ ڈاکٹر عشا ملک سے تفصیل سے بات کی۔
نمائندے نے جب ڈاکٹر عشا ملک سے پوچھا کہ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کی کتنی اہمیت ہے تو انہوں نے کہا کہ ذہنی صحت کی بھی اتنی ہی زیادہ اہمیت ہے جتنی کہ جسمانی صحت کی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہمارے سماج میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو کہ ذہنی صحت اور اس کی تندرستی سے یا تو بالکل نا واقف ہیں یا وہ اس طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق روحانی اور جسمانی صحت کے علاوہ ذہنی صحت کی بھی اپنی ایک خاص اہمیت ہے، جس پر بھی ایک انسان کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عشا کا کہنا ہے کہ 'ذہنی صحت میں کئی ساری چیزیں شامل ہیں مثال کے طور سوچنے کا ڈھنگ، جذبات، عقل، قابلیت اور مشکلات سے باہر نکلنے کی سکت، زندگی گزارنے کا طریقۂ کار وغیرہ'۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ جسمانی صحت کی طرف لوگ آج کل کافی حساس نظر آرہے ہیں لیکن سماج میں بدنامی کی وجہ سے اکثر لوگ نفسیاتی بوجھ، دباو یا تکلیف پر بات کرنے سے اب بھی کتراتے ہیں جس کے باعث پھر یہ سخت ذہنی بیماری کی شکل اختیار کرتا ہے جبکہ بدنامی یا بد گمانی کی ڈر سے بھی کئی سارے مریض گھر والوں یا اپنے اپنوں سے بھی ذہنی مرض سے متعلق بات کرنے سے شرم محسوس کر رہے ہیں اور اگر کوئی جرات بھی کرتا ہے تو کئی سارے والدین بچوں کو خود ہی کسی کام میں مشغول رہنے یا دیگر مشورہ دے کر نظر انداز بھی کرتے ہیں جس سے وقت پر ان کا علاج نہں ہوپاتا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ سماج میں اس طرح کی سوچ کو بدلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ذہنی دباؤ ایک انسان کے مزاج یا طبیعت میں علامت کے طور کئی تبدیلیاں لاتا ہے۔ کئی سارے تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں، کئی وزن کم یا بڑھنے کی شکایات کرتے رہتے ہیں جبکہ بہت سارے کسی چیز میں من یا بھوک نہ لگنے کی بھی شکایت کرتے ہیں۔
نوجوان نسل میں ذہنی مرض کے بڑھتے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر عشا ملک نے کہا کہ اس کے پیچھے کئی طرح کہ وجوہات کار فرما ہیں جس میں بڑھتی بے روزگار اور بے کاری ایک اہم مسئلہ ہے۔
وہیں کشمیر کے حالات و واقعات بھی نوجوانوں میں ذہنی دباو کی تکالیف بڑھانے کے موجب بن رہے ہیں۔ وہیں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اپنے کام کاج سے ہاتھ دھو بیٹھے جس کے چلتے بھی ذہنی مرض میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے بیچ اب نوجوان اپنی بوریت کو دور کرنے کے لیے آسان دستیابی کی وجہ سے منشیات کی لت میں بھی مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ بڑھتے ذہنی دباؤ کے ساتھ ساتھ منشیات کی لت بھی نوجوانوں میں بری طرح پھیل رہی ہے۔
بات چیت کے دوران ڈاکٹر نے کہا کہ کم عمری میں بچوں میں ذہانت پختہ نہیں ہوتی ہے جس سے وہ اچھے اور برے میں بہتر فرق نہیں کر سکے۔ وہیں 11 سے 19 برس تک کے نوجوانوں میں جسمانی، ذہنی اور سماجی سطح پر کئی طرح کی تبدیلی رونما ہوتی ہیں جس کو وقت پر بھانپنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وقت پر توجہ دی جاسکے۔
بجٹ 2021-22: اہم نکات پر ایک نظر
بحیثیت سائیکلوجسٹ علاج سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مریض سے اس کی ذہنی پریشانی کے تمام اسباب پہلے جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعد میں پھر کئی طرح کی تھیراپیز پر کام کیا جاتا ہے تاکہ مریض کو پنپ رہے غلط خیالات یا سوچ سے باہر نکالا جائے یا اس میں مثبت اور بہتر سوچ پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکے۔ تاہم اگر مریض شدید ذہنی مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے تھیراپی کے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات سائکیٹرسٹ سے بھی مشورہ لے کر دوا لینے کی تجویز دی جاتی ہے۔
کشمیر وادی میں نوجوانوں میں نفسیاتی بوجھ کم کرنے کے لیے نمائندے کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عشا نے کہا کہ اس تیز رفتار دور میں سماجی اور گھریلو سطح پر بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کے حوالے بچوں سے بات کر کے اور مسئلے کی نسبت اس کا حل نکالنا کافی اہمیت کا حامل ہے۔ وہیں سرکاری سطح پر بھی یہاں کے نوجوانوں کو بے کاری اور بے روزگاری سے باہر نکالنے کے لئے اہم اور کارگر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ تبھی جاکے نوجوانوں میں بڑھتی نفسیاتی بیماریوں کو کم کیاجاسکتا ہے۔