قومی حد بندی کمیشن کے اراکین جموں و کشمیر کے تین روزہ دورے کے دوران سیاسی اسمبلی نشستوں کی نئی حدبندی پر تبادلہ خیال کریں گے۔ یہ دورہ 6 جولائی کو شروع ہوگا۔
چوبیس جون کو دہلی میں مختلف مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات کے بعد حد بندی کو حتمی شکل دینے کے احکامات صادر کیے گئے حالانکہ کشمیر کی کئی سیاسی جماعتوں نے حدبندی کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کا نظام جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت چلایا جا رہا ہے۔
اگرچہ سنہ 2002 میں فاروق عبداللہ کی حکومت نے حد بندی کو سنہ 2026 تک پابندی کر دی تھی تاہم تنظیم نو قانون کے اطلاق کے بعد مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر میں نئی اسمبلی حلقوں کے قیام کے لیے حد بندی کمیشن تشکیل دے کر یونین ٹریٹری میں مزید سات سیٹوں کا اضافہ کرنے کا حکم جاری کیا۔
سابق ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 111 تھی جن میں 87 پر ہی انتخابات منعقد ہوتے تھے کیونکہ 24 سیٹوں کو اس پار والے کشمیر کی آبادی کے لیے مخصوص رکھا جاتا ہے۔
جموں و کشمیر میں سنہ 1994 میں آخری حد بندی ہوئی تھی جس میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 76 سے 87 بڑھا دی گئی- جموں خطے میں پانچ سیٹوں کا اضافہ ہوا جس سے اس صوبے میں حلقوں کی تعداد 32 سے 37 ہوئی، جبکہ وادی میں چار سیٹوں کے اضافے سے سیٹوں کی تعداد 42 سے 46 ہوئی۔
نئی حد بندی میں سات مزید سیٹوں کے قیام کرنے کا منصوبہ ہے جس سے جموں و کشمیر میں سیٹوں کی کل تعداد 90 تک پہنچ جائے گی۔
حد بندی کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے مواقف مختلف ہیں۔ بی جے پی، آبادی کے علاوہ جغرافیائی پوزیشن کے تحت حدبندی کی وکالت کرتے ہی جبکہ نیشنل کانفرنس سپریم کورٹ ہدایات کے تحت حدبندی کو 2026 تک مٔوخر کرانے کی وکیل تھی۔ پی ڈی پی کہتی ہے کہ انکا کوئی اسمبلی ممبر یا پارلیمنٹ ممبر ہے ہی نہیں اسلئے انکا کمیشن کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ این سی ممبران نے پہلے اجلاس کا بائیکاٹ کیا لیکن اب وہ کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔پی ڈی پی نے وزیر اعظم میٹنگ کے بعد بھی حد بندی کے تئیں اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: All Party Meeting: جموں و کشمیر کے رہنماؤں کا رد عمل
پارٹی کے ترجمان ہر بجش سنگھ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی غیر آئینی ہے اور اس کے بعد لئے جانے والے تمام فیصلے غیر قانونی ہیں۔
جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر نے کہا کہ کانگرس حدبندی کمیشن میں شرکت کرے گی اور اگر ان کو لگا کہ کمیشن قانون کے دائرے کے باہر یہ نئے حلقوں کا اضافہ کر رہی ہے تو وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں گے۔
وادی کشمیر میں یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ مرکزی سرکار کی ہدایت پر حد بندی کمیشن وادی کے مقابلے میں جموں خطے میں سیٹوں کی تعداد زیادہ کر دے گی جس سے حکومت سازی میں جموں خطہ ہی سبقت حاصل کر سکتا ہے۔