جموں و کشمیر میں سات نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے پیش نظر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت قائم کیے گئے حد بندی کمیشن نے آج سے یونین ٹریٹری کا چار روزہ دورہ شروع کیا۔ دورے کے پہلے روز کمیشن نے سرینگر میں متعدد سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔
نیشنل کانفرنس کے وفد نے ڈی لمیٹیشن کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد کی صدارت سابق وزیر خزانہ عبد الرحیم راتھر نے کی۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کو کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہئے جس سے جموں و کشمیر کے تشخص کو زک پہنچے۔ انہوں نے کہا نیشنل کانفرنس حد بندی کے حق میں نہیں ہے کیونکہ جس قانون کے تحت حد بندی کی جا رہی ہے وہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ انہوں نے کہا جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ نیشنل کانفرنس کو منظور نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کی عوام اس کی حمایت میں ہیں۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو چھوڑ کر تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے کمیشن سے ملنے کی رضامندی ظاہر کی۔ پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے حد بندی کمیشن سے ملاقات کرنے کا بائیکاٹ کیا ہے اور کہا کہ 'یہ کمیشن دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد قائم کیا گیا ہے لہٰذا یہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔'
ادھر کانگریس نے بھی حد بندی کمیشن سے ملاقات کی۔ وفد کی صدارت ریاستی پردیش کانگریس کے صدر جی اے میر کر رہے تھے۔ انہوں نے بعدازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہیں کیا جاتا تب تک حد بندی کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کمیشن نے ایک سال سے زیادہ عرصہ سے جموں و کشمیر میں ایکزرسائز کی ہے اس کو عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے تبھی کانگریس پارٹی کو تجویز پیش کر سکتی ہے۔
بی جے پی وفد حد بندی کمیشن سے ملاقی ہوا ہے۔ پارٹی کے ریاستی ترجمان الطاف ٹھاکر نے کہا ماضی میں جو حد بندی ہوئی تھی وہ جموں و کشمیر کے دو خاندانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کمیشن کو بتایا گیا کہ قبائلی آبادی کے لئے آٹھ سے نو سیٹیں مختص ہونی چاہئے۔
سی پی آئی (ایم) کا وفد حد بندی کمیشن سے ملاقی ہوا۔ وفد کی صدارت جی ایم ملک کر رہے تھے۔ انہوں نے بعدازاں میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے وفد کے سامنے عوامی امنگوں کو رکھا اور اپیل کی کہ کمیشن کی حتمی رپورٹ عوامی خواہشات کے مطابق ہونی چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: جموں وکشمیر میں حد بندی کی ضرورت نہیں تھی: یشونت سنہا
واضح رہے سنہ 2002 میں فاروق عبد اللہ کی حکومت نے حد بندی پر سنہ 2026 تک پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم تنظیم نو قانون کے اطلاق کے بعد مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر میں نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے لیے حد بندی کمیشن تشکیل دے کر یونین ٹیریٹری میں مزید سات سیٹوں کا اضافہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
سابق ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 111 تھی جن میں 87 پر ہی انتخابات منعقد ہوتے تھے کیونکہ 24 سیٹوں کو اس پار والے کشمیر کی آبادی کے لیے مخصوص رکھا جاتا ہے۔
جموں و کشمیر (بشمول لداخ) میں سنہ 1994 میں آخری حد بندی ہوئی تھی جس میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 76 سے 87 کر دی گئی تھی۔ جموں خطے میں پانچ سیٹوں کا اضافہ ہوا جس سے اس صوبے میں حلقوں کی تعداد 32 سے 37 ہوئی، جبکہ وادی میں چار سیٹوں کے اضافے سے سیٹوں کی تعداد 42 سے 46 ہوئی۔
نئی حد بندی میں سات مزید سیٹوں کے قیام کا منصوبہ ہے جس سے یو ٹی جموں و کشمیر میں سیٹوں کی کل تعداد 90 تک پہنچ جائے گی۔
حد بندی کمیشن میں جسٹس (ر) رنجنا پرکاش دیسائی، چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سشیل چندر اور ڈپٹی الیکشن کمشنر چندر بھوشن شامل ہیں۔