سرینگر:حد بندی کمیشن برائے جموں و کشمیر کی سربراہ ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی نے جمعرات کو یونین ٹیریٹری کے اسمبلی حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے حتمی حکم نامے پر دستخط کیے، وہیں کشمیری سیاستدانوں نے کمشن کی رپورٹ کو عوام کے ساتھ زیادتی قرار دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس مشق کو جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ کے تحت یہاں کے باشندگان پر مسلط کیا گیا ہے۔"ہم سے کبھی مشورہ نہیں کیا گیا اور ہماری غیر موجودگی میں لیا گیا کوئی بھی فیصلہ درست فیصلہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہمیں کبھی قابل قبول ہو سکتا ہے۔ ہماری خصوصی حیثیت اور ریاست کا درجہ ختم کر دیا گیا۔ ہم نے اس ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ آج تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی جو کہ افسوسناک ہے۔"
انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ "ہم آئین پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور اگر حدبندی پر روک ہے تو انہوں نے یہ مشق یہاں کیوں کی؟ حلقوں کی حدبندی کا بنیادی معیار آبادی ہے اور پھر دوسرے معیارات پر عمل کیا جاتا ہے۔ ایک علاقے کو ایک حلقہ اور دوسرے کو چھ کس بنیاد پر دیا گیا؟ انہیں حدبندی کا فیصلہ کرنے کے لیے 2011 کی مردم شماری پر عمل کرنا چاہیے تھا۔"
وہیں نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار کا کہنا تھا کہ "جیسے اُمید تھی ویسا ہی ہوا۔ پراکسیوں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے اور ان کے خدشات کو دور کیا گیا۔ ہمارے خدشات کو دور نہیں کیا گیا اور یہ محض سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے رد و بدل ہے۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "ہم اس رپورٹ کے اثرات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کا ماننا ہے کہ جب بھی اسمبلی انتخابات ہوں گے ووٹرز بی جے پی اور اس کی پراکسیوں کو فیصلہ کن جواب دیں گے۔"
جموں کشمیر اپنی پارٹی کے سینیئر لیڈر منتظر محی الدین کا کہنا تھا کہ "حتمی رپورٹ مایوس کن ہے۔ ہمیں افسوس ہے کیونکہ کمیشن جزوی تھا اور انہوں نے جموں و کشمیر میں دو جماعتوں کی مدد کو یقینی بنانے کے لیے مرکزی حکومت کے اشاروں پر کام کیا۔ وہ جموں و کشمیر کے تمام لوگوں کو متحد نہیں رکھنا چاہتے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "حد بندی کمیشن نے پارٹیز کو اپنی سفارشات پیش کرنے کی دعوت دے کر ان کے ساتھ مذاق کیا اور انہوں نے ایک بھی سفارش رپورٹ میں شامل نہیں کی۔ یہ عوام دشمن اور جمہوریت مخالف رپورٹ ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر رؤف بٹ کا کہنا تھا کہ "وہ (کمشن) لوگوں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہ بی جے پی کو جیتنے میں مدد دینے کی کوشش ہے۔ انہوں نے اداروں کو تباہ کیا ہے۔ یہ ایک یلغار ہے۔ انہوں نے اس عمل کے اصولوں پر عمل نہیں کیا ہے۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "انہوں نے قانون اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بی جے پی طاقت سے حکومت کرنا چاہتی ہے۔ اعتماد کی کمی ہے اور یہ رپورٹیں لوگوں کو مزید ناراض کر دیں گی۔ کچھ لوگ جو اس مشق پر یقین رکھتے تھے وہ بھی مایوس ہیں اور یہ کسی بھی ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں آئینی اصولوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور یہ بھارت کے وفاق کو کمزور کرنے کا ایک قدم ہے۔ ہم اس رپورٹ کی مذمت کرتے ہیں اور یہ بی جے پی کی تین رکنی ٹیم نے کی ہے نہ کہ کسی آزاد کمیشن نے۔"
وہیں پیپلز کانفرنس نے اپنے بیان میں حدبندی کی رپورٹ کو مرکز کی جانب سے کشمیر کے خلاف ماضی کے امتیازی سلوک کو دہرانے کا الزام عائد کیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "پارٹی ایک آر ٹی آئی دائر کرے گی اور میٹنگوں کی ویڈیو ریکارڈنگ طلب کرے گی تاکہ اس بات کو بے نقاب کیا جا سکے کہ کس طرح میٹنگ ہالوں کے باہر سینے پیٹنے والے لوگ حدبندی کمیشن کے ممبران کو خوش کرنے کے لیے پیٹھ پیچھے جھک رہے تھے۔"
واضح رہے کہ کمیشن نے یوٹی میں سیٹوں کی تعداد 83 سے بڑھا کر 90 کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 24 سیٹیں ہیں جو بدستور خالی ہیں۔ پہلی بار درج فہرست قبائل کے لیے نو نشستیں تجویز کی گئی ہیں۔ پینل نے جموں کے لیے چھ اضافی اسمبلی نشستیں اور کشمیر کے لیے ایک نشست کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ اس سے پہلے کشمیر ڈویژن میں 46 اور جموں ڈویژن کی 37 نشستیں تھیں۔
جموں و کشمیر کے لیے حد بندی کمیشن پینل مارچ 2020 میں تشکیل دیا گیا تھا اور گزشتہ برس اس پینل کی توسیع ایک اور سال کر دی گئی۔ مرکزی حکومت نے فروری میں کمیشن کو مکمل کام کرنے کے لیے دوبارہ دو ماہ کی توسیع دی۔
مزید پڑھیں:
یاد رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت حدبندی کمیشن کا قیام عمل میں لایا۔ اس سے پہلے سنہ 2002 میں فاروق عبد اللہ کی حکومت نے حد بندی پر سنہ 2026 تک پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم تنظیم نو قانون کے اطلاق کے بعد مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے لیے حد بندی کمیشن تشکیل دے کر یونین ٹریٹری میں مزید سات سیٹوں کا اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی۔
سابق ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 111 تھی جن میں 87 پر ہی انتخابات منعقد ہوتے تھے باقی 24 سیٹوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے مختص رکھا گیا ہے۔