بتادیں کہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے جموں کشمر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف غیر یقینی صورتحال سایہ فگن ہوئی اور غیر اعلانیہ ہڑتال کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا تھا۔
دریں اثنا کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق کا کہنا ہے کہ وادی کی معشیت کو گزشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران تخمیناً 12 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وادی کی معشیت کو ایک دن کے ہڑتال سے 125 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
موصوف صدر نے کہا کہ اس نقصان کی ذمہ داری انتظامیہ کو قبول کرنی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ، موبائل فون اور ایس ایم ایس خدمات کی معطلی سے تجارت کو بے تحاشا نقصان پہنچا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے قرب وجوار میں بدھ کے روز بھی غیر یقینی اور اضطرابی صورتحال کے بیچ معمولات زندگی شاہراہ بحالی کی طرف جادہ پیما ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں تاہم بدھ کے روز بعض علاقوں میں جزوی ہڑتال رہی تاہم سڑکوں پر ٹریفک کی آمد رفت جاری رہی۔
ادھر جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع میں بدھ کے روز جزوی ہڑتال رہی، بازاروں میں کچھ دکانیں مکمل طور پر ہی بند رہیں اور کچھ مکمل کھلی رہیں اور کچھ ادھ کھلی رہیں اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل جاری رہی۔ تاہم اطلاعات کے مطابق اننت ناگ میں گزشتہ ہفتے شرپسند عناصر نے دو بار پٹاخے سر کئے جس کی وجہ سے بازاروں میں افراتفری مچ گئی۔
وسطی ضلع گاندربل سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع اور دیگر ملحقہ علاقوں میں بدھ کے روز بازار صبح کے وقت بھی نہیں کھل گئے تاہم سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور نقل وحمل اور پبلک ٹرانسپورٹ کی جزوی نقل حمل جاری رہی۔
وادی میں مواصلاتی خدمات کی بتدریج بحالی کے ساتھ ساتھ ریل خدمات بھی جزوی طور بحال ہوئی ہیں تاہم انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات مسلسل معطل ہیں جس کے باعث لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا اور تاجروں کو نوع بہ نوع مسائل سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔
انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کی وجہ سے صحافیوں کو انتظامیہ کی طرف سے محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم میڈیا سینٹر روزانہ بنیادوں پر جانا پڑتا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ میڈیا سینٹر میں دستیاب محدود وسائل کے باعث سے ان کا کام کاج متاثر ہورہا ہے۔
انہوں نے انتظامیہ سے کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کے مطالبے کو دوہراتے ہوئے کہا کہ وادی میں اگرچہ معمولات بحال ہورہے تو انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اب کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کو بحال کرے۔
طلبا کا کہنا ہے کہ وہ ایس ایم ایس سروس کی معطلی کی وجہ سے کوئی بھی فارم بشمول اسکالرشپ فارم جمع کرنے سے قاصر ہیں۔
شہر سری نگر کے بعض علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں بدھ کے روز بھی صبح کے وقت بازاروں میں دکانیں کھلی رہیں اور یگر تجارتی سرگرمیاں جاری رہیں اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل برابر جاری رہی۔
تاہم پائین شہر کے کئی علاقوں بشمول نوہٹہ، نوا کدل، گوجوارہ، خانیار، راجوری کدل اور دیگر ملحقہ علاقوں میں بدھ کے روز صبح کے وقت دکانیں نہیں کھلیں تاہم سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ جاری رہا اور پبلک ٹرانسپورٹ کی جزوی نقل وحمل بھی دیکھی گئی۔
وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات اور قصبہ جات سے معمولات زندگی دھیرے دھیرے بحال ہونے کی اطلاعات ہیں، کئی علاقوں میں بازار صبح کے وقت کھل کر دن کے دو بجے بند ہوئے تو بعض علاقوں میں دکان دوپہر کے بعد ہی کھل کر شام گئے تک کھل رہے۔
وادی میں سرکاری دفاتر اور بنکوں میں معمول کا کام کاج بحال ہوا ہے اور تعلیمی اداروں میں بھی امتحانات شروع ہونے سے طلبا کا رش بڑھ گیا ہے۔ تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی میں پانچ اگست کے بعد تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل بحال نہیں ہوسکا جس کے باعث طلبا نصف نصاب بھی مکمل نہ کرسکے۔
والدین کا الزام ہے کہ انتظامیہ نے طلبا کا تعلیمی سال بچانے کے بجائے حالات کو بہتر پیش کرنے کے لئے امتحانات منعقد کئے۔
دریں اثنا وادی میں سردی کے پیش نظر محبوس سیاسی لیڈروں کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا جارہا ہے پہلے پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو چشمہ شاہی سے مولانا آزاد روڑ کے متصل ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں منتقل کیا گیا بعد ازاں 33 لیڈروں کو ایم ایل اے ہوسٹل منتقل کیا گیا تاہم نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ فی الوقت ہری نواس میں ہی مقید ہیں۔
کشمیر میں اضطرابی صورتحال کا 108واں دن
وادی کشمیر میں گزشتہ 108 دنوں سے جاری غیر یقینی صورتحال اور غیر اعلانیہ ہڑتال کے بیچ معمولات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ شاہراہ بحالی کی طرف جادہ پیما ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں تاہم انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات پر جاری پابندی سے لوگوں کے مشکلات روز افزوں دو چند ہورہے ہیں۔
بتادیں کہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے جموں کشمر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف غیر یقینی صورتحال سایہ فگن ہوئی اور غیر اعلانیہ ہڑتال کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا تھا۔
دریں اثنا کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق کا کہنا ہے کہ وادی کی معشیت کو گزشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران تخمیناً 12 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وادی کی معشیت کو ایک دن کے ہڑتال سے 125 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
موصوف صدر نے کہا کہ اس نقصان کی ذمہ داری انتظامیہ کو قبول کرنی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیٹ، موبائل فون اور ایس ایم ایس خدمات کی معطلی سے تجارت کو بے تحاشا نقصان پہنچا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے قرب وجوار میں بدھ کے روز بھی غیر یقینی اور اضطرابی صورتحال کے بیچ معمولات زندگی شاہراہ بحالی کی طرف جادہ پیما ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں تاہم بدھ کے روز بعض علاقوں میں جزوی ہڑتال رہی تاہم سڑکوں پر ٹریفک کی آمد رفت جاری رہی۔
ادھر جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع میں بدھ کے روز جزوی ہڑتال رہی، بازاروں میں کچھ دکانیں مکمل طور پر ہی بند رہیں اور کچھ مکمل کھلی رہیں اور کچھ ادھ کھلی رہیں اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل جاری رہی۔ تاہم اطلاعات کے مطابق اننت ناگ میں گزشتہ ہفتے شرپسند عناصر نے دو بار پٹاخے سر کئے جس کی وجہ سے بازاروں میں افراتفری مچ گئی۔
وسطی ضلع گاندربل سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع اور دیگر ملحقہ علاقوں میں بدھ کے روز بازار صبح کے وقت بھی نہیں کھل گئے تاہم سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی بھر پور نقل وحمل اور پبلک ٹرانسپورٹ کی جزوی نقل حمل جاری رہی۔
وادی میں مواصلاتی خدمات کی بتدریج بحالی کے ساتھ ساتھ ریل خدمات بھی جزوی طور بحال ہوئی ہیں تاہم انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات مسلسل معطل ہیں جس کے باعث لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا اور تاجروں کو نوع بہ نوع مسائل سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔
انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کی وجہ سے صحافیوں کو انتظامیہ کی طرف سے محکمہ اطلاعات وتعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم میڈیا سینٹر روزانہ بنیادوں پر جانا پڑتا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ میڈیا سینٹر میں دستیاب محدود وسائل کے باعث سے ان کا کام کاج متاثر ہورہا ہے۔
انہوں نے انتظامیہ سے کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کے مطالبے کو دوہراتے ہوئے کہا کہ وادی میں اگرچہ معمولات بحال ہورہے تو انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اب کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کو بحال کرے۔
طلبا کا کہنا ہے کہ وہ ایس ایم ایس سروس کی معطلی کی وجہ سے کوئی بھی فارم بشمول اسکالرشپ فارم جمع کرنے سے قاصر ہیں۔
شہر سری نگر کے بعض علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں بدھ کے روز بھی صبح کے وقت بازاروں میں دکانیں کھلی رہیں اور یگر تجارتی سرگرمیاں جاری رہیں اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل برابر جاری رہی۔
تاہم پائین شہر کے کئی علاقوں بشمول نوہٹہ، نوا کدل، گوجوارہ، خانیار، راجوری کدل اور دیگر ملحقہ علاقوں میں بدھ کے روز صبح کے وقت دکانیں نہیں کھلیں تاہم سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ جاری رہا اور پبلک ٹرانسپورٹ کی جزوی نقل وحمل بھی دیکھی گئی۔
وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات اور قصبہ جات سے معمولات زندگی دھیرے دھیرے بحال ہونے کی اطلاعات ہیں، کئی علاقوں میں بازار صبح کے وقت کھل کر دن کے دو بجے بند ہوئے تو بعض علاقوں میں دکان دوپہر کے بعد ہی کھل کر شام گئے تک کھل رہے۔
وادی میں سرکاری دفاتر اور بنکوں میں معمول کا کام کاج بحال ہوا ہے اور تعلیمی اداروں میں بھی امتحانات شروع ہونے سے طلبا کا رش بڑھ گیا ہے۔ تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی میں پانچ اگست کے بعد تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل بحال نہیں ہوسکا جس کے باعث طلبا نصف نصاب بھی مکمل نہ کرسکے۔
والدین کا الزام ہے کہ انتظامیہ نے طلبا کا تعلیمی سال بچانے کے بجائے حالات کو بہتر پیش کرنے کے لئے امتحانات منعقد کئے۔
دریں اثنا وادی میں سردی کے پیش نظر محبوس سیاسی لیڈروں کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا جارہا ہے پہلے پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو چشمہ شاہی سے مولانا آزاد روڑ کے متصل ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں منتقل کیا گیا بعد ازاں 33 لیڈروں کو ایم ایل اے ہوسٹل منتقل کیا گیا تاہم نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ فی الوقت ہری نواس میں ہی مقید ہیں۔