وہیں وادی کمشیر میں جہاں تک نظر پڑتی ہے وہاں تک پولیس اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے علاوہ کہیں کہیں پر ایمرجنسی کی صورت میں گھروں سے باہر نکلے ہوئے افراد ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر طرف خاموشی اور خوف طاری ہے۔ سڑکیں سنسان اور بازار ویران نظر آرہے ہیں۔
اگر اس موسم کی بات کریں تو وادی کشمیر میں ملکی اور غیر ملکی سیاح یہاں کے ان خوبصورت اور دلکش مناظر کا لطف اٹھانے کے لیے آتے تھے۔ وہیں آنے والے سیاح رواں ماہ میں زیادہ تر مغل باغات، باغ گل لالہ، مشہور جھیل ڈل اور نگین جھیل کے خوبصورت اور پر مسرت نظاروں کا مزہ لیتے تھے لیکن اس بار ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
جھیل ڈل اور نگین جھیل میں ایک وقت میں یہ ہاؤس بوٹ سیاحوں سے چہک اٹھتے تھے اور سیاحوں کی آمد سے یہاں ہر سو پر رونق نظارے بھی دیکھنے کو ملتے تھے۔ جبکہ ان ہوٹلوں اورریستورانوں میں سیاحوں کی اچھی خاصی بھیڑ دیکھنے کو ملتی تھی تاہم آجکل یہاں ہر طرف مایوسی کا عالم ہے۔
سیاحتی شعبہ سے جڑے دیگر افراد کے ساتھ ساتھ ہاؤس بوٹ مالکان بھی اس وقت کافی مالی تنگی سے جوجھ رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے پیدہ شدا صورتحال کے بعد سیاحتی صنعت سے جڑے افراد ابھی ابھر بھی نہیں پائے تھے کہ کرونا وائرس کی وبا نے انہیں مزید پیچھے دھکیل دیا۔ ہوٹل مالکان ہوں یا دکاندار، ٹیکسی والے ہو یا شکارہ والے سبھی ان دنوں کافی پریشان اور فکر مند ہیں۔ دیگر اخراجات کیا دو وقت کی روڑی جٹا پانا بھی ان کے مشکل ہو رہا ہے۔
ایک شکارہ والے نے ای ٹی وی بھارت سے اپنا درد بیان کرتے ہوئے یوں کہا 'سال رواں کے مارچ مہینے میں یہاں ملکی سیاحوں کی آمد ہونے لگی تھی لیکن کرونا وائرس نے سیاحتی سیزن شروع ہونے سے پہلے ہی پانی پھیر دیا۔ جموں و کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال کے بیچ کب تک اس وبائی بیماری سے نجات ملے گی اور تھمی ہوئی یہ زندگی کب تک دوبارہ اپنی رفتار پکڑے گی۔ فی الحال اس حوالے سےکچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے'۔