یورپی وفد نے اپنے دورے کے اختتام پر سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کی، تاہم اس پریس کانفرنس میں چُنندہ میڈیا اداروں کو ہی داخلہ دیا گیا۔
دورہ کشمیر سے قبل وفد نے دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال نے ان کے لیے ظہرانے کا انتظام کیا۔
اس طرح یہ دورہ پہلے ہی سے تنازع کا شکار ہو گيا۔ اپوزیشن جماعتوں نے تو اس پر سوال اٹھائے۔ وہیں خود ہندتوا نظریے کے حامل بعض رہنماؤں اور جماعتوں نے بھی اس وفد کے تعلق سے بی جے پی پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔
کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ جب بھارتی سیاستدانوں کو کشمیر میں لوگوں سے نہیں ملنے دیا جا رہا تو یورپی یونین کے سیاستدانوں کو اس کی اجازت کیوں دی گئي؟ پارٹی نے اسے ملک کی پارلیمان اور جمہوریت کی توہین قرار دیا ہے۔
بی جے پی کی حلیف جماعت شیو سینا کا کہنا تھا کہ اگر کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے تو بیرونی وفد کو کشمیر کس لیے بھیجا گیا؟ 'کیا کشمیر ہمارا داخلی معاملہ نہیں ہے، امت شاہ کو اس کا جواب دینا ہوگا کہ جب بھارتی پارلیمان کے کشمیر جانے پر پابندی ہے تو پھر غیر ملکی وفد کو کشمیر جانے کی اجازت کیسے دی گئی۔'
محبوبہ مفتی کے ٹویٹر ہینڈل پر ان کی بیٹی التجا مفتی نے ایک ٹویٹ پیغام میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ 'آخر امریکی اراکین پارلیمان کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔' برطانوی رُکن پارلیمان کِرس ڈیوس کو بھی اس دورے کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا، بعد ازاں اس دعوت نامے کو رد کر دیا گیا اور رد کرنے کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
کِرس ڈیوس نے کشمیر میں عوام سے آزادانہ طور پر بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ انہوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا وہ مودی حکومت کے لیے تعلقات عامہ بہتر کرنے کی کاروائی میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی یہ دکھانے کے لیے کہ سب ٹھیک ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ کشمیر میں جمہوری اصولوں کو توڑا گیا ہے اور دنیا کو اس کا نوٹس لینا ہو گا۔ کئی سیاسی مبصرین نے اس دورے کو بی جے پی کا 'پی آر اسٹنٹ' تک کہا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ مودی حکومت اس سے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ کشمیر میں سب کچھ درست ہے۔
دورے سے قبل بین الاقوامی میڈیا میں وفد میں شامل اراکین سے متعلق شائع ہونے والی متعدد روپرٹز میں کہا گیا کہ کشمیر جانے والے یورپی پارلیمان کے بیشتر اراکین کا تعلق انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے اور مبینہ طور پر وہ اسلام مخالف بیان بازی کے لیے مشہور ہیں۔
گزشتہ پانچ اگست کو کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد غیر سرکاری طور پر بیرونی ممالک کے افراد کا کشمیر کا یہ پہلا دورہ ہے۔ لیکن اس ماہ کے اوائل میں بھارت نے امریکی کانگریس کے رکن کرِس وان ہیلن کی کشمیر کے دورے کی درخواست کو مسترد کر دیی تھی۔
اب دیکھنے کی بات یہ ہوئی گی کہ کیا امریکی اراکین پارلیمان اور انسانی حقوق کے کارکنان کو بھی کشمیر جانے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔