علی گڑھ: گزشتہ ماہ 24 دسمبر کی شب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے محسن الملک ہال میں کشمیری طالب علم کی پٹائی کا معاملہ ابھی پوری طرح سے سرد بھی نہیں ہوا ہے کہ اے ایم یو میں زیر تعلیم تقریبا 1300 کشمیری طلباء کی تفصیلات طلب کیے جانے سے متعلق اے ایم یو انتظامیہ کی جانب سے جاری شدہ نوٹس سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس کو لے کر ایک بار پھر کشمیری طلباء میں بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ Kashmiri Students in AMU in Deep Stress
جاری نوٹس سے متعلق جے اینڈ کے اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے وزیر داخلہ کو ٹویٹ بھی کیا ہے اور جاری پریس ریلیز کے مطابق ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ اور ملک کے وزیر داخلہ سے اے ایم یو میں زیر تعلیم کشمیری طلباء کی پروفائلنگ کا سرکیولر واپس لینے کی اپیل کی گئی ہے اور اے ایم یو انتظامیہ سے پوچھا ہے کہ کیا کشمیری طلباء ملک کے باقی طلباء سے مختلف ہیں؟ Circular Seeking Details Kashmiri students in AMU
جاری نوٹس سے متعلق یونیورسٹی پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی نے بتایا ’’صرف کشمیری طلباء کی ہی نہیں بلکہ ہر سال یونیورسٹی میں زیر تعلیم تمام طلباء کی تفصیلات علیگڑھ انتظامیہ کو دستیاب کروائی جاتی ہے۔ خاص طور پر کشمیر اور نارتھ ایسٹ ریاستوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں پراکٹر نے کہا ’’نوٹس میں صرف کشمیری طلباء کا ذکر کیوں کیا گیا ہے اس کے بارے میں یونیورسٹی کنٹرول سے بات کی جائے گی۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: Attack on Kashmiri Students in AMU کشمیری طلبہ کا تحفظ ہماری اولین ترجیح، ستیش گوتم
جاری شدہ نوٹس سے متعلق اے ایم یو میں زیر تعلیم سینئر کشمیری رسرچ اسکالرز کا کہنا ہے کہ ’’نوٹس کو لے کر ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ پریشان ہو رہے ہیں، ہم ہی نہیں ہمارے والدین بھی فکر مند ہیں۔‘‘ اے ایم یو میں کئی برسوں سے زیر تعلیم ایک ریسرچ اسکالر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’پہلی مرتبہ ہم سے تفصیلات مانگی جا رہی ہیں۔‘‘
ایک جانب یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہر سال یونیورسٹی میں زیر تعلیم تمام طلباء کی تفصیلات علی گڑھ پولیس کو دستیاب کرائی جاتی ہے وہیں دوسری جانب یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ ہم سے ہماری تفصیلات مانگی جا رہی ہے جس سے ہم لوگ پریشان ہیں اور جاری نوٹس میں بھی صرف کشمیری طلبہ کا ذکر کیا گیا ہے اگر تمام طلبہ کی تفصیلات مانگی جاتی ہیں تو پھر جاری نوٹس میں دیگر طلبہ اور ان کی ریاست کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ؟ اس بارے میں ابھی کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں ہوا ہے۔