اپنی بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا کہ ہندوستان کی اقتصادیات رواں برس میں تین لاکھ کروڑ کی ہوجائے گی اور اگلے 5 برس میں پانچ لاکھ کروڑ کی ہونے کی امید ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ سب روزگار کے نئے طریقوں، بنیادی ڈھانچوں کی بہتری اور ڈیجیٹل اقتصادیات سے ممکن ہوگا۔
اس ضمن میں ای ٹی وی بھارت نے کشمیر میں ماہرین اقتصادیات، تاجروں اور صحافیوں سے بات کی تو انہوں نے اپنا ردعمل یوں اظہار کیا۔
بشیر احمد ڈار، پریزیڈنٹ، کشمیر ٹریڈرز اینڈ مینوفیکچررز فیڈریشن کا کہنا تھا کہ 'بجٹ میں دفاع کے علاوہ کسی بھی ضروری چیز کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس بجٹ سے ہم خوش نہیں ہیں اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہیں'۔
وہی بٹہ مالو ٹریڈرز ایسو سی ایشن کے صدر، ابرار احمد کا کہنا تھا کہ 'وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو گلے لگانا ہے، ہمیں گلے لگانے کا مطلب جب ہماری اقتصادی حالات میں بہتری تھی مگر ایسا اس بجٹ میں کچھ دکھائی نہیں دیا'۔
وہی سینئر صحافی رضیہ نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'چونکہ یہ بجٹ ایک خاتون پیش کرنی تھی تو ہمیں تھی کہ خواتین کے لیے کچھ خاص ہوگا۔ میں انتظار کر رہی تھی خواتین کے حقوق کے بارے میں بات ہوگی کبھی لیکن کچھ نہیں تھا'۔
ماہر اقتصادیات، فیروز احمد نے اپنے رد عمل کا اظہار یوں کیا کہ 'ہمیں ایسا بجٹ چاہیے تھا جو ریاست کی زمینی سطح پر پر تبدیلی لا سکے۔ مجھے نہیں لگ رہا ریاست کے چھوٹے دکاندار، تاجر یا عام آدمی کے لیے اس بجٹ میں کچھ خاص ہے۔ ریاست کی اقتصادی حالت ٹھیک نہیں ہے کہیں سڑکیں نہیں ہیں کہیں بجلی نہیں ہے اور کہیں پانی نہیں ہے۔ ایسے میں ہم امید کر رہے تھے ریاست کی بہبودی کے لئے بجٹ میں خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جانا چاہیے تھا'۔
ساحل یوسف نامی اخبار مالک کا ماننا ہیں کہ 'بجٹ میں اخبار کے کاغذ پر دس فیصد کسٹم ڈیوٹی لگانے کا اعلان کیا گیا ہے اس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا'۔