ETV Bharat / state

معروف ماہر تعلیم آغا اشرف علی کون تھے؟

author img

By

Published : Aug 8, 2020, 3:19 PM IST

وادی کشمیر کے معروف ماہر تعلیم آغا اشرف علی 97 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔

آغا اشرف علی
آغا اشرف علی

معروف ماہر تعلیم آغا اشرف علی گزشتہ رات کے دوران اپنی رہائش گاہ پر انتقال کرگئے۔ وہ 97 برس کے تھے۔ انہیں سنیچر کو سرینگر شہر کے علمگری بازار میں واقع آبائی مقبرے میں دفن کیا گیا۔ اشرف علی نے جموں و کشمیر میں تعلیمی نظام میں بہتری کے حوالے سے کلیدی کردار نبھایا ہے۔

آغا اشرف علی کے لواحقین کے مطابق وادی میں عالمی وبا کورونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر کسی بھی قسم کی تعزیتی مجلس کا انعقاد نہیں کیا جائے گا تاہم عوام سے گزارش کی گئی ہے کہ فاتحہ خوانی ذاتی طور پر، بذریعے فون یا پھر سماجی رابطہ کی ویب سائٹ کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں۔

سرینگر شہر میں 18 اکتوبر 1922 کو پیدا ہونے والے آغا اشرف علی، آغا ظفر علی قاضی باش کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ ان کے خاندان میں تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی تھی۔ اشرف علی کی والدہ بیگم ظفر علی کشمیر کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ اشرف علی کی ابتدائی تعلیم سری نگر کے مشہور مشنری اسکول میں ہوئی اور گریجویشن کی ڈگری انہوں نے شری پرتاپ کالج سے حاصل کی۔

کالج کے دوران سنہ 1941 میں اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی تقریر سے اشرف علی اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ذاکر حسین کو اپنا استاد مان لیا جس کے ساتھ ہی ان کی اپنی شخصیت میں بھی کافی تبدیلی آئی۔

گریجویشن مکمل کرنے کے بعد اشرف علی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے انہیں سنہ 1945 میں مورسن میڈل سے نوازا گیا۔ تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز ڈگری امتحانات میں انہوں نے اول مقام حاصل کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا اور اس دوران وہ متعدد دانشوروں کے رابطے میں آئے۔ ان شخصیتوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر مجیب، پروفیسر حبیب، پروفیسر عابد حسین شامل ہیں۔ دانشوروں کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے کے سبب انہیں مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کرنے کا بھی موقع ملا۔ اشرف علی ان سب شخصیات سے کافی متاثر ہوئے اور ان کے ذہن پر گہری چھاپ پڑی۔ ہند و پاک کی تقسیم کے بعد آغا اشرف علی کو واپس کشمیر آنا پڑا کیونکہ ان سے کہا گیا کی مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھیں انگلستان جانا ہوگا۔

لکھنؤ کی رہنے والی صوفیہ سے نکاح کے بعد اشرف علی انگلینڈ کے لیے روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے تعلیم کے نظام کے حوالے سے ڈپلومہ کا کورس کیا اور سنہ 1951 میں فرانس، جرمنی، سویڈن، سوئزرلینڈ اور ڈنمارک کا دورہ کر کے وہاں کے تعلیمی نظام کو جاننے کی کوشش کی۔ جس کے بعد وہ واپس کشمیر لوٹے، جہاں انہیں جموں و کشمیر کے اُس وقت کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ بطور آفیسر اسپیشل ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا۔

وادی آنے کے ایک برس بعد 1952 میں انہیں کشمیر کا انسپکٹر آف اسکولز بنایا گیا۔ آغا اشرف علی نے اپنے کیرئر میں کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ سنہ 1954 میں انہیں ٹیچرس کالج آف ایجوکیشن کا آفیشیٹنگ پرنسپل مقرر کیا گیا بعد میں انہیں نیشنل ایکسٹینشن ٹریننگ سینٹر کا پرنسپل بنایا گیا۔

جب غلام محمد صادق کو وزیر تعلیم مقرر کیا گیا تب اشرف علی کو دوبارہ سے انسپکٹر اسکول کی ذمہ داریاں سنبھالنے کو کہا گیا تاہم وہ راضی نہیں ہوئے اور کہا کہ ’’میں ٹیچرس کالج کا پرنسپل ہی ٹھیک ہوں کیونکہ یہاں سے بہتر استاد نکل سکتے ہیں۔‘‘ ان کی اس خواہش کا احترم کیا گیا اور سنہ 1955 سے لےکر 1960 تک وہ ٹیچرس کالج کے پرنسپل رہے۔ جس کے بعد وہ اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے۔

سنہ 1967 میں وہ امریکہ کی یونیورسٹی بال اسٹیٹ ٹیچرز کالج کے پہلے پی ایچ ڈی ہولڈر بنے، وہ جب واپس وادی آئے تو انہیں دوبارہ سے کچھ وقت کے لئے آفیسر اسپیشل ڈیوٹی مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد کشمیر یونیورسٹی نے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن شروع کیا جہاں انہیں پروفیسر مقرر کیا گیا۔ وہ یونیورسٹی کے پہلے کشمیری پروفیسر تھے ان سے قبل وہاں صرف لیکچرر اور ریڈرس ہی ہوا کرتے تھے۔ بطور پروفیسر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ انہوں نے ذہین طلباء کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنا شروع کیا اور جو طلباء تعلیم حاصل کر کے واپس وادی آئے انہیں یہاں کے اسکولوں نے اچھی تنخواہ پر بطور استاد مقرر کیا۔ وہ تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی بگوان سائیں کمیٹی کے رکن بھی رہے۔

سنہ 1975 میں انہیں جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کا پہلا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ بطور چیئرمین انہوں نے وادی کے تمام سکولوں میں ریاضی اور سائنس کو لازمی قرار دیا۔ وہ سنہ 1982 میں بطور کمشنر آف ہائیرایجوکیشن ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1988 میں انہیں کمپیوٹر اتھارٹی آف جموں و کشمیر کا چیئرمین بنایا گیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اشرف علی کا سفر ختم نہیں ہوا۔ وہ لگاتار یونیورسٹیوں، کالجوں میں اسکولوں میں اپنے لیکچروں سے طلباء کو متاثر کرتے رہے۔ آغا اشرف علی کو نہ صرف تعلیم بلکہ ہر ایک شعبے پر عبور حاصل تھا جو ان کی تقریروں میں اور مباحثوں میں صاف نظر آتا تھا۔

انہیں سنہ 2004 میں جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی جانب سے رکن قانون سازیہ بننے کی پیشکش کی گئی تھی تاہم انہوں نے اسے ٹھکرا دیا۔

ان کی کارکردگی کے لیے انہیں سینکڑوں انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ انہیں ’’پرائیڈ آف ایجوکیشن‘‘ اور ’’نگینہ وطن‘‘ کے خطابات سے بھی سرفراز کیا گیا۔ سنہ 2011 میں اشرف علی نے اپنی سوانح عمری ’’کچھ تو لکھیے کہ لوگ کہتے ہیں‘‘ اردو زبان میں شائع کی۔

سنہ 1997 میں اشرف علی کی اہلیہ صوفیہ آغا کا انتقال ہوا۔ صوفیہ بھی ایک مشہور تعلیم داں تھیں اور سری نگر میں واقع کالج آف ایجوکیشن کی پرنسپل اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن رہیں۔ اشرف علی کا بڑا بیٹا آغا شاہد علی پوری دنیا میں اپنی شاعری کے لیے مشہور تھا۔ ان کا انتقال سنہ 2001 میں ہوا۔ اشرف علی کا دوسرا بیٹا ڈاکٹر آغا اقبال علی، اور دو بیٹیاں - ڈاکٹر حسین احمد اور ڈاکٹر سمیت آغا- اس وقت امریکہ میں بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں۔

معروف ماہر تعلیم آغا اشرف علی گزشتہ رات کے دوران اپنی رہائش گاہ پر انتقال کرگئے۔ وہ 97 برس کے تھے۔ انہیں سنیچر کو سرینگر شہر کے علمگری بازار میں واقع آبائی مقبرے میں دفن کیا گیا۔ اشرف علی نے جموں و کشمیر میں تعلیمی نظام میں بہتری کے حوالے سے کلیدی کردار نبھایا ہے۔

آغا اشرف علی کے لواحقین کے مطابق وادی میں عالمی وبا کورونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر کسی بھی قسم کی تعزیتی مجلس کا انعقاد نہیں کیا جائے گا تاہم عوام سے گزارش کی گئی ہے کہ فاتحہ خوانی ذاتی طور پر، بذریعے فون یا پھر سماجی رابطہ کی ویب سائٹ کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں۔

سرینگر شہر میں 18 اکتوبر 1922 کو پیدا ہونے والے آغا اشرف علی، آغا ظفر علی قاضی باش کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ ان کے خاندان میں تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی تھی۔ اشرف علی کی والدہ بیگم ظفر علی کشمیر کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ اشرف علی کی ابتدائی تعلیم سری نگر کے مشہور مشنری اسکول میں ہوئی اور گریجویشن کی ڈگری انہوں نے شری پرتاپ کالج سے حاصل کی۔

کالج کے دوران سنہ 1941 میں اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی تقریر سے اشرف علی اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ذاکر حسین کو اپنا استاد مان لیا جس کے ساتھ ہی ان کی اپنی شخصیت میں بھی کافی تبدیلی آئی۔

گریجویشن مکمل کرنے کے بعد اشرف علی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے انہیں سنہ 1945 میں مورسن میڈل سے نوازا گیا۔ تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز ڈگری امتحانات میں انہوں نے اول مقام حاصل کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا اور اس دوران وہ متعدد دانشوروں کے رابطے میں آئے۔ ان شخصیتوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر مجیب، پروفیسر حبیب، پروفیسر عابد حسین شامل ہیں۔ دانشوروں کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے کے سبب انہیں مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات کرنے کا بھی موقع ملا۔ اشرف علی ان سب شخصیات سے کافی متاثر ہوئے اور ان کے ذہن پر گہری چھاپ پڑی۔ ہند و پاک کی تقسیم کے بعد آغا اشرف علی کو واپس کشمیر آنا پڑا کیونکہ ان سے کہا گیا کی مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھیں انگلستان جانا ہوگا۔

لکھنؤ کی رہنے والی صوفیہ سے نکاح کے بعد اشرف علی انگلینڈ کے لیے روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے تعلیم کے نظام کے حوالے سے ڈپلومہ کا کورس کیا اور سنہ 1951 میں فرانس، جرمنی، سویڈن، سوئزرلینڈ اور ڈنمارک کا دورہ کر کے وہاں کے تعلیمی نظام کو جاننے کی کوشش کی۔ جس کے بعد وہ واپس کشمیر لوٹے، جہاں انہیں جموں و کشمیر کے اُس وقت کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ بطور آفیسر اسپیشل ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا۔

وادی آنے کے ایک برس بعد 1952 میں انہیں کشمیر کا انسپکٹر آف اسکولز بنایا گیا۔ آغا اشرف علی نے اپنے کیرئر میں کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ سنہ 1954 میں انہیں ٹیچرس کالج آف ایجوکیشن کا آفیشیٹنگ پرنسپل مقرر کیا گیا بعد میں انہیں نیشنل ایکسٹینشن ٹریننگ سینٹر کا پرنسپل بنایا گیا۔

جب غلام محمد صادق کو وزیر تعلیم مقرر کیا گیا تب اشرف علی کو دوبارہ سے انسپکٹر اسکول کی ذمہ داریاں سنبھالنے کو کہا گیا تاہم وہ راضی نہیں ہوئے اور کہا کہ ’’میں ٹیچرس کالج کا پرنسپل ہی ٹھیک ہوں کیونکہ یہاں سے بہتر استاد نکل سکتے ہیں۔‘‘ ان کی اس خواہش کا احترم کیا گیا اور سنہ 1955 سے لےکر 1960 تک وہ ٹیچرس کالج کے پرنسپل رہے۔ جس کے بعد وہ اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے۔

سنہ 1967 میں وہ امریکہ کی یونیورسٹی بال اسٹیٹ ٹیچرز کالج کے پہلے پی ایچ ڈی ہولڈر بنے، وہ جب واپس وادی آئے تو انہیں دوبارہ سے کچھ وقت کے لئے آفیسر اسپیشل ڈیوٹی مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد کشمیر یونیورسٹی نے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن شروع کیا جہاں انہیں پروفیسر مقرر کیا گیا۔ وہ یونیورسٹی کے پہلے کشمیری پروفیسر تھے ان سے قبل وہاں صرف لیکچرر اور ریڈرس ہی ہوا کرتے تھے۔ بطور پروفیسر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ انہوں نے ذہین طلباء کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجنا شروع کیا اور جو طلباء تعلیم حاصل کر کے واپس وادی آئے انہیں یہاں کے اسکولوں نے اچھی تنخواہ پر بطور استاد مقرر کیا۔ وہ تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی بگوان سائیں کمیٹی کے رکن بھی رہے۔

سنہ 1975 میں انہیں جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کا پہلا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ بطور چیئرمین انہوں نے وادی کے تمام سکولوں میں ریاضی اور سائنس کو لازمی قرار دیا۔ وہ سنہ 1982 میں بطور کمشنر آف ہائیرایجوکیشن ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1988 میں انہیں کمپیوٹر اتھارٹی آف جموں و کشمیر کا چیئرمین بنایا گیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اشرف علی کا سفر ختم نہیں ہوا۔ وہ لگاتار یونیورسٹیوں، کالجوں میں اسکولوں میں اپنے لیکچروں سے طلباء کو متاثر کرتے رہے۔ آغا اشرف علی کو نہ صرف تعلیم بلکہ ہر ایک شعبے پر عبور حاصل تھا جو ان کی تقریروں میں اور مباحثوں میں صاف نظر آتا تھا۔

انہیں سنہ 2004 میں جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی جانب سے رکن قانون سازیہ بننے کی پیشکش کی گئی تھی تاہم انہوں نے اسے ٹھکرا دیا۔

ان کی کارکردگی کے لیے انہیں سینکڑوں انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ انہیں ’’پرائیڈ آف ایجوکیشن‘‘ اور ’’نگینہ وطن‘‘ کے خطابات سے بھی سرفراز کیا گیا۔ سنہ 2011 میں اشرف علی نے اپنی سوانح عمری ’’کچھ تو لکھیے کہ لوگ کہتے ہیں‘‘ اردو زبان میں شائع کی۔

سنہ 1997 میں اشرف علی کی اہلیہ صوفیہ آغا کا انتقال ہوا۔ صوفیہ بھی ایک مشہور تعلیم داں تھیں اور سری نگر میں واقع کالج آف ایجوکیشن کی پرنسپل اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن رہیں۔ اشرف علی کا بڑا بیٹا آغا شاہد علی پوری دنیا میں اپنی شاعری کے لیے مشہور تھا۔ ان کا انتقال سنہ 2001 میں ہوا۔ اشرف علی کا دوسرا بیٹا ڈاکٹر آغا اقبال علی، اور دو بیٹیاں - ڈاکٹر حسین احمد اور ڈاکٹر سمیت آغا- اس وقت امریکہ میں بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.