سرینگر (جموں و کشمیر): موٹر ایکسیڈنٹ کلیمز ٹریبونل، بارہمولہ نے مشاہدہ کیا ہے کہ سڑک حادثات اور ٹریفک جام میں اضافے نے معمول کی زندگی کافی حد تک متاثر کی ہے۔ پریزائیڈنگ آفیسر ایم اے سی ٹی (چیف ڈسٹرکٹ جج) محمد یوسف وانی کا کہنا ہے کہ ’’اب وقت آگیا ہے کہ مرکزی اور مقامی حکومتوں بشمول جموں و کشمیر کو ٹریفک کے نظم و نسق کے لیے کچھ پالیسی اور قواعد کے ساتھ آگے آنا چاہیے جس میں ٹریفک کو محدود کرنا بھی شامل ہے۔‘‘
عدالت نے یہ بات سوپور کے رہنے والے الطاف احمد کو معاوضے کے طور پر 68,12,000 روپے کا چیک سونپتے ہوئے کہی جو 11 اکتوبر 2015 کو پیش آنے والے حادثے میں مستقل طور پر معذور ہو گئے تھے۔ عدالت نے کہا کہ ’’شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب ہم سڑک حادثات کے بارے میں نہیں سنتے ہیں۔‘‘ عدالت نے مزید کہا کہ ’’گاڑیوں کی بے قابو نقل و حرکت حادثات کی بڑی وجہ ہے۔‘‘ عدالت نے مزید کہا کہ حالات قابو سے باہر ہو گئے تو لوگ موٹر گاڑیوں کا سوچنے کے بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دیں گے۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ’’نابالغ اور دیگر افراد درست اور موثر ڈی / ایل (ڈرائیونگ لائسنس) کے بغیر ہی گاڑی چلا رہے ہیں۔ غیر مجاز افراد کو ڈرائیونگ سے دور رکھ کر سڑک حادثات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مرکز اور دیگر ریاستی حکومتوں بشمول ہماری یو ٹی کو ٹریفک مینجمنٹ اور ریگولیشن کے لیے کچھ پالیسی اصولوں کے ساتھ آگے آنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘ جس میں عدالت کے مطابق ’’کسی گھرانے کی جانب سے گاڑیوں کی خریداری کی حد بھی شامل ہے، کیونکہ گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد ایک ہی گھرانے کی ملکیت میں ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: Baramulla Road Accident: بارہمولہ میں سڑک حادثہ، ایک شخص ہلاک
عدالت نے اس حقیقت کو بھی حیران کن قرار دیا کہ ’’بغیر بیمہ شدہ گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں خواہ وہ کسی بھی قسم کی کوتاہی اور کمیشن کی وجہ سے پیدا ہو۔‘‘ ایک موٹر گاڑی کا مالک چند ہزار روپے کا پریمیم ادا کرکے اپنی گاڑی کا بیمہ کروانے میں کوتاہی کرتا ہے۔ ایک سڑک حادثے کی صورت میں لاکھوں روپے کے معاوضے کی ادائیگی کے ذمہ دار ہونے کا خطرہ ہے۔