پیر زادہ محمد اقبال سرینگر کے ایک تین ستارہ ہوٹل میں بحیثیت جنرل منیجر کام کر رہے ہیں۔ 2اگست کو سیاحوں کے نام وادی چھوڑنے کے لئے مشاورت جاری ہونے کے فوراً بعد ان کے بھی ہوٹل سے تمام سیاح نکل گئے۔ جس کے بعد سے آج تک ان کے ہوٹل میں کوئی سیاح نہیں آیا ہے۔
اقبال کا کہنا ہے کہ انہیں چالیس سے زائد ملازمین کو مجبوراً نکالنا پڑا کیوں کہ ہوٹل پوری طرح سے خسارے میں چل رہا ہے۔
ساحل حسین سیاحت سے جڑے ایک دوسرے تجارتی ادارے میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انکے ہاں 70 ملازمین کام کر رہے تھے لیکن حالات خراب ہونے کے بعد سے انہیں پچاس فیصد یعنی 35 ملازمین کو نکالنا پڑا۔
ساحل حسین کے مطابق ان کے ساتھ ملازمین کے علاوہ مختلف طبقوں سے وابستہ متعدد لوگ کام کر رہے تھے لیکن وہ سب بھی بے روزگار ہو گئے ہیں اور گھروں میں بے کار بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران کشمیر میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ اندسٹریز کے صدر شیخ عاشق حسین مانتے ہیں کہ ہڑتال کے دوران اڑھائی لاکھ سے زیادہ لوگ بے کار ہو گئے ہیں جن میں نجی ملازمین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔
ان کے مطابق جو لوگ کام کر پا رہے ہیں وہ سبھی زندہ رہنے کے لئے ہی مشقت کر رہے ہیں۔ جبکہ بے حد ہنر مند ملازمین بھی بے روز گار ہیں۔ فی الحال ہڑتال و غیر یقینیت بدستور جاری ہے جبکہ بے روزگاروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت کی جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد سے ہی وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتال جاری ہے