سرینگر (جموں کشمیر) : 11 دسمبر کو سپریم کورٹ نے دفعہ 370 کی منسوخی پر قانونی مہر لگا کر گوکہ 5 اگست سنہ 2019 کے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاسی فیصلے کو قانونی منظوری دے دی۔ کورٹ کی مہر تصدیق سے قبل جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کو پارلیمنٹ اور صدر جمہوریہ کی منظوری تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا کہ ’’دفعہ 370 جموں کشمیر کو ملک کے ساتھ ضم کرنے کا ایک سلسلہ تھا۔‘‘ عدالت نے کہا کشمیر کو ملک میں ضم کرنے کے لئے دفعہ 370 کی منسوخی ’’خصوصی حل‘‘ ہے۔
اگرچہ پانچ اگست سنہ 2019 کو دفعہ 370 ایک تاریخی مگر متنازعہ فیصلہ تھا، وہیں 11 دسمبر کا سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی جموں کشمیر کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے متنازعہ قرار دیا اور اس پر مایوسی ظاہر کی۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ جموں کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد کئی ایسے تاریخی فیصلے کئے گئے ہیں جو یہاں کے عوام بالخصوص وادی کشمیر کو قابل قبول نہیں تھے۔ ان کا ماننا ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتوں بالخصوص کانگریس اور بی جے پی نے کشمیر کو انکے سیاسی اغراض کے لئے استعمال کیا اور یہاں کی صورتحال اور تاریخی بھی تبدیل کی۔
کشمیر اور بھارت کے مابین تاریخ کے کچھ اہم پڑاؤ پر ایک نظر
سنہ 1947 میں اس وقت کے غیر منقسم اور پرنسلی اسٹیٹ جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے جب بھارت کے ساتھ الحاق کیا تو انہوں ملک کے ساتھ ’’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ یعنی ’’الحاق‘‘ کیا۔ یہ مشروط الحاق 26 اکتوبر سنہ 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سرکار کے ساتھ کیا اور لاڈ موئنٹ بیٹن نے اس کو منظور کیا۔ تاہم الحاق کے شرائط کے مطابق بھارت سرکار جموں کشمیر کے متعلق محض تین امور بشمول دفاع، بیرونی مراسم اور مواصلات پر اقتدار اور اختیار ہوگا۔ دیگر معاملات جموں کشمیر کی حکومت کو ہی نظام چلانے کا حق ہوگا۔ سنہ 2020 کو جموں کشمیر انتظامیہ نے ہر سال 26 اکتوبر کو سرکاری تعطیل کا اعلان کیا اور اس روز سرکاری تقریبات منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ الحاق کے دستاویزات کے ذریعے سے ہی دفعہ 370 آئین ہند میں شامل کیا گیا جس سے جموں کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت حاصل تھی اور اسے 5 اگست سنہ 2019 کو بی جے پی سرکار نے ختم کر دیا۔
دفعہ 370
دفعہ 370 سے جموں کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت حاصل تھی، اور اسی قانون کے ذریعے ملک کے آئین کا اطلاق جموں کشمیر پر ہوتا رہا۔ سیاسی جماعتیں اور مبصرین اس قانون کو جموں کشمیر اور بھارت کے مابین ایک پل قرار دیتے تھے۔ انکا یہ کہنا تھا کہ اس قانون سے ہی جموں کشمیر ملک میں شامل ہوا تاہم ضم نہیں ہوا تھا۔ یہ قانون آئین ہند میں سنہ 1950 میں شامل کیا گیا جب بھارت کا آئین 26 جنوری کو لاگو ہوا۔ اس دفعہ کے مطابق جموں کشمیر کا اپنا الگ آئین اور جھنڈا تھا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے ساتھ ہی خصوصی حیثیت اور ریاستی درجہ کا بھی خاتمہ ہوا۔ یہ خصوصی آئینی حیثیت اس وقت کے جموں کشمیر کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ اور بھارت سرکار کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ہوا تھا۔
سنہ 1952 دلی معاہدہ
یہ معاہدہ بھارت سرکار اور جموں کشمیر کی اس وقت کی شیخ عبداللہ کی قیادت والی حکومت کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کے مطابق آئین ہند کے ریزڈوری قانون جموں کشمیر پر لاگو ہوں گے، جن میں آئین ہند کے بنیادی قانون یعنی دفعہ 19 سے 22 تک کا اطلاق۔
سنہ 1953 میں وزیر اعظم کی گرفتاری
شیخ محمد عبداللہ اور بھارت سرکار کے مابین جموں کشمیر کے معاملات پر مراسم اتار چڑھاؤ کے شکار ہوتے رہے۔ سنہ 1953 میں شیخ محمد عبداللہ کو بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے احکامات پر جموں کشمیر پولیس نے گلمرگ میں گرفتار کروایا اور تمل ناڈو کی ایک دور دراز عمارت میں نظر بند رکھا۔ اس عمارت کو جیل قرار دیا گیا۔ شیخ محمد عبداللہ اس وقت جموں کشمیر کے وزیر اعظم تھے۔ سنہ 1953 میں ہی مرکزی سرکار نے کانگریس کے لیڈر سعید میر قاسم کو جموں کشمیر کا وزیر اعظم تعینات کیا۔ لیکن میر قاسم کے دور میں ہی آئینی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ سنہ 1965 میں وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ کے درجے پر اتارا گیا جبکہ صدر ریاست کو گورنر کا نام دیا گیا۔ میر قاسم کے بعد غلام محمد صادق جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے اور ان ہی کے ادوار میں دفعہ 370 میں بیشتر ترمیمات ہوئیں۔
گزشتہ برس سجاد لون کی پیپلز کانفرنس نے ان ترامیم پر ایک دستاویز جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ کانگریس کے ادوار میں دفعہ 370 میں 52 قانونی ترامیم کی گئیں اور اس قانون (خصوصی حیثیت) کو کانگریس نے کھوکھلا کیا۔
سنہ 1975 میں شیخ عبداللہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز
شیخ محمد عبداللہ کو سنہ 1975 میں جیل سے رہا کیا گیا۔ ان کی قید کے دوران مرکزی سرکار نے ان کی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے لیڈر مرز افضل بیگ کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ شیخ عبداللہ ہی جموں کشمیر کی خودمختاری یعنی اٹانومی کے بانی مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے خودمختاری کے بعد رائے شماری کا نعرہ دیا، جس پر ان کو نہرو نے قید کیا۔ مرزا افضل بیگ اور جی پارتھہ سارتھی کے مابین دلی معاہدہ طے ہوا جس کے تحت شیخ عبداللہ جیل سے رہا ہوئے اور انہوں نے رائے شماری کے بجائے ویر اعلیٰ کی کرسی کو قبول کیا۔ شیخ عبداللہ نے جب کانگریس دور میں حکومت سنبھالی تو انہوں رائے شماری کو ’’سیاسی آوارہ گردی‘‘ قرار دے کر حکومت سنھبالی۔ اس فیصلے سے کشمیر میں انکے سیاسی قد پر کاری ضرب لگا اور انکی شہرت نفرت میں بدل گئی۔
سنہ 1984 میں فاروق عبداللہ کی برخواستگی
8 ستمبر 1982 کو شیخ عبداللہ کے انتقال کے بعد انکے فرزند نے شیخ کی موت کے روز ہی حکومت سنبھالی اور جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ کے بطور حلف اٹھایا۔ سنہ 1983 کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے کامیابی حاصل کرکے فاروق عبداللہ کو دوبارہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر براجمان کیا۔ لیکن اسوقت کی مرکزی کانگریس سرکار کے مابین مراسم بہتر نہیں تھے جس کی وجہ سے اندرا گاندھی کی کانگریس حکومت نے نیشنل کانفرنس کے دو حصے کئے اور فاروق عبداللہ کے برادر نسبتی غلام محمد شاہ کو جموں کشمیر کا وزیر اعلیٰ تعینات کیا۔ مؤرخین اور سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مرکزی سرکار کے نیشنل کانفرنس کے خالف اس سازش اور ساز باز میں پی ڈی پی کے بانی مرحوم مفتی سعید اور فاروق عبداللہ کے پھوپھی زاد بھائی مظفر شاہ شامل تھے۔ مرحوم غلام محمد شاہ نے عوامی نیشنل کانفرنس تشکیل دے کر کانگریس کی حمایت کے ساتھ سرکار بنائی۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ مرکزی سرکار کے اس فیصلے سے جموں کشمیر میں جمہوریت داغدار ہوئی کیونکہ مرکزی سرکار اور اس وقت کے جموں کشمیر کے گورنر جگموہن نے ایک منتخب سرکار کو توڑ کر غلام محمد شاہ کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ غلام محمد کی سرکار محض دو برس تک ہی قائم رہی جب 26 مارچ سنہ 1986 کو گورنر جگموہن نے شاہ کی سرکار کا خاتمہ کیا۔ اس دوران فاروق عبداللہ کے مراسم دلی کے ساتھ استوار ہوئے تھے۔
سنہ 1987 کے متنازعہ اسمبلی انتخابات
مارچ سنہ 1986 سے مارچ 1987 تک جموں کشمیر میں گورنر راج نافذ رہا۔ تاہم مارچ 1987 میں اسمبلی انتخابات منعقد کئے گئے۔ ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس الائنس نے اکثریت حاصل کرکے حکومت سازی کی۔ لیکن ان انتخابات کو جموں کشمیر کی تاریخ میں بدترین انتخابات مانا جاتا ہے کیونکہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس پر یہ الزام ہے کہ ان جماعتوں نے اس وقت کی مرکزی کانگریس سرکار کے ساتھ مل کر انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کرکے ووٹ حاصل کئے۔
نیشنل کانفرنس کی حریف جماعتیں بشمول پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس کا الزام ہے کہ نیشنل کانفرنس کی ان انتخابات میں دھاندلی کہ وجہ سے ہی کشمیر میں عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی نے جنم لیا۔ کیونکہ ان انتخابات میں جماعت اسلامی اور دیگر ہم خیال جماعتوں کا اتحاد ’’مسلم یونیٹد فرنٹ‘‘ MUFنیشنل کانفرنس اور کانگرس کے بالمقابل تھا۔ ان انتخابات میں کالعدم عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے کمانڈر سید صلاح الدین بھی انتخابات لڑ رہتے تھے۔ جبکہ کالعدم تنظیم جے کے ایل ایف کے محروس چیجرمین یاسن ملک انکے الیکشن ایجنٹ تھے۔ انتخابات میں دھاندلیوں کے بعد ان افراد نے عسکریت پسندی کا آغاز کیا۔ ان انتخابات کو سیاسی مبصرین جمہوریت کو ناکام کرنے سے تعبیر کر رہے ہیں جس سے کشمیر کے لوگوں کا اعتماد انتخابات اور جمہوریت پر ٹوٹ گیا۔
فاروق عبداللہ اور کانگریس کی مخلوط سرکار سنہ 1990 تک ہی رہی کیونکہ کشمیر میں عسکریت پسندی طول پکڑ رہی تھی، جس کے باعث مرکزی سرکار نے جگموہن کو جموں کشمیر کا گورنر تعینات کیا۔ دہلی کے اس فیصلے سے فاروق عبداللہ کافی ناراض ہوئے۔ سنہ 1984 کے واقعات کی وجہ سے فاروق عبداللہ اور جگموہن کے تعلقات بہتر نہیں تھے۔ جگموہن کی تعیناتی اور وادی کشمیر میں تشدد اور عسکریت پسندی کے سبب فاروق عبداللہ نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور وہ لندن چلے گئے۔
سنہ 1990 سے سنہ 1996 تک جموں کشمیر میں گورنر راج نافذ رہا اور ان برسوں میں کشمیر کے حالات کافی ابتر ہوئے تھے۔ کشمیری پنڈتوں نے تشدد کے باعث نوے کے آغاز سے ہی وادی سے نقل مکانی کی۔ انکی نقل مکانی کشمیر کی تاریخ کا ایک بدترین واقع قرار دیا جاتا ہے اور ان کی ہجرت کے لیے بعض سیاسی مبصرین جگمہون کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہیں۔
سنہ 1996 میں اسمبلی انتخابات
کشمیر کی صورتحال بہتر ہوتے ہی مرکزی سرکار نے سنہ 1996 میں اسمبلی انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس کو اکثریت حاصل ہوئی اور فاروق عبداللہ تیسری مرتبہ جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس مرتبہ انکی سرکار نے چھ سال مکمل کر لئے۔ سنہ 2002 میں اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے اور پی ڈی پی نے کانگریس کے ساتھ مل کر مخلوط سرکار بنائی۔ پی ڈی پی سنہ 1998 کے اواخر میں وجود میں آئی تھی اور تین برس کے وجود کے بعد انہوں نے اسمبلی انتخابات میں محض 16 سیٹیں حاصل کرکے کانگریس کے ساتھ مخلوط سرکار بنائی۔ پی ڈی پی کے بانی مرحوم مفتی سعید جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے، تاہم وہ تین سال کی مدت تک ہی وزیر اعلیٰ رہے۔
کانگریس اور پی ڈی پی کے معاہدے کے مطابق دوسرے مرحلے میں غلام نبی آزاد وزیر اعلیٰ بنے۔ تاہم امرناتھ شرائن بورڈ کو جنگلات کی زمین منتقل کرنے کے معاملے پر پی ڈی پی نے آزاد سے حمایت واپس لی اور چھ ماہ قبل ہی سرکار گرائی۔ اس واقعہ سے جموں اور کشمیر میں امرناتھ ایجیٹیشن شروع ہوئی جس سے جموں ضلع نے کشمیر کا ’’ایکانامک بائیکاٹ‘‘ کیا۔ یہ ایجیٹیشن دو ماہ سے زائد عرصے تک رہی۔ جموں میں اسکی سربراہی بی جے پی کر رہی تھی۔ اس ایجیٹیشن کے باعث جموں اور کشمیر کے مابین دوریاں بڑھ گئیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو سیاسی مفاد حاصل ہوا۔
سنہ 2008 کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے مخلوط سرکار بنائی اور عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ بنے۔ جبکہ امرناتھ ایجیٹیشن سے بی جے پی نے بھی جموں میں 11 سیٹیں حاصل کیں جو اس پارٹی کے لئے بڑی کامیابی تھی۔ جموں میں کانگریس کا ہی دبدبہ رہا تھا۔
سنہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکز میں اقتدار میں آنے سے جموں صوبے میں بی جے پی میں جان آگئی۔ وہیں جموں کشمیر میں سنہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے جموں میں 25 سیٹیں حاصل کیں اور پی ڈی پی نے کشمیر صوبے اور پیر پنچال سے 28 سیٹیں حاصل کرکے بی جی پی کے ساتھ مخلوط سرکار بنائی۔ مفتی سعید دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے، لیکن مرض میں مبتلا ہونے سے وہ سنہ 2015 دسمبر میں فوت ہوئے۔ انکی موت کے بعد محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ بنیں لیکن بی جے پی کے ساتھ سیاسی اختلافات کے باعث سنہ 2018 جون میں بی جے پی نے حمایت واپس لی۔
مرکزی سرکار نے یہاں صدر راج نافذ کیا اور گورنر ستیہ پال ملک کو گورنر تعینات کیا۔
ستیہ پال ملک کے دور اقتدار میں مرکزی سرکار نے صدر ہند کے ذریعے چند قوانین نافذ کئے جس سے صدر ہند کو یہاں کا آئین ترمیم کرنے کے اختیارات حاصل ہوئے۔ اسی عرصے سے دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کا راستہ تیار کیا گیا، جس کو بی جے پی سرکار نے 5 اگست سنہ 2019 کو عملی جامہ پہنا کر منسوخ کیا۔ سابق ریاست جموں کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کیا گیا۔ لداخ خطے کو علیحدہ یونین ٹریٹری بنایا گیا۔
دفعہ 370 کی منسوخی بھارتیہ جنتا پارٹی کا بنیادی منشور تھا۔ اس منشور کو پانچ اگست سنہ 2019 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی سرکار نے منسوخ کرکے اپنا سیاسی منشور پائیہ تکمیل تک پہنچایا اور چار برس کے عرصے کے بعد سپریم کورٹ نے اس کو قانونی مہر لگا کر ہمیشہ کے لئے ختم کیا۔ گو کہ 1947 میں ایک آزاد ریاست کا ملک کے ساتھ مشروط الحاق کا سفر سنہ 2019 میں یونین ٹریٹری پر ختم ہوا۔
مزید پڑھیں: دفعہ 370 کی تنسیخ پر سپریم کورٹ کی مہر تصدیق