ایل او سی تجارت سے وابستہ متعدد تاجرین نے سرینگر میں احتجاج اور نعرے بازی کرتے ہوئے تجارت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس موقعے پر ’’سلام آباد تاجر انجمن‘‘ کے چیئر مین ہلال ترکی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ’’اس تجارت کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ لاکھوں لوگ منسلک ہیں جن کے روزگار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘‘
ہلال ترکی نے مزید کہا کہ ’’یہ فیصلہ اچانک لیا گیا اس لئے تاجروں کا مال آر پار پھنسا ہوا ہے جس سے وہ کافی پریشانی اور نقصان میں مبتلا ہوئے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جب تک تجارت کو بحال کیا جائے تب تک جو بقایہ جات یا پھنسا ہوا مال ہے اس کی بحالی اور بازیابی کے اسباب پیدا کئے جائیں۔
ان تاجروں کی حمایت کرتے ہوئے وادی کی بڑی تاجر انجمن ’’کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز‘‘ کے نائب صدر ناصر خان نے تجارت پر اچانک قدغن عائد کرنے کو تاجروں کی تباہی قرار دیا۔
ناصر خان نے کہا کہ ’’اگر پچھلے 11 برسوں سے تجارت چلی آ رہی ہے تو سرکار نے اس میں کوتاہیوں کو دور کیوں نہیں کیا؟‘‘
انہوں نے کہا کہ اس تجارت کو غلط طور پر استعمال کرنے والے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے، مگر جو تاجر ایمانداری سے تجارت کرتے ہیں انکو سزا کیوں دی جائے۔