ETV Bharat / state

Armed personnel Can’t be arrested جموں کشمیر میں مسلح افراد کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا - جموں و کشمیر اور لداخ مسلح اہلکار کی گرفتاری

جموں و کشمیر اور لداخ میں کسی بھی مسلح فوجی یا نیم فوجی اہلکار کو مرکزی سرکار کی اجازت کے بغیر حراست میں نہیں لیا جا سکتا۔

ا
ا
author img

By

Published : May 3, 2023, 6:54 PM IST

سرینگر (جموں و کشمیر): مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر اور لداخ میں ’’آرمڈ فورسز آف دی یونین آف انڈیا‘‘ کے مسلح اہلکاروں کو گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا ہے۔ یہ حکم مرکزی نیم فوجی دستوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس تحفظ کا اطلاق ریاست میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کیا گیا ہے، اب کسی بھی اہلکار کو مرکزی سرکار کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تین سال قبل تک ریاست جموں و کشمیر میں ’’رنبیر پینل کوڈ 1989 ‘‘ نافذ تھا جس کی وجہ سے ضابطہ فوجداری، ’سی آر پی سی، 1973 کے سیکشن 45 ‘ کے تحت، مسلح افواج کے ارکان کو گرفتاری سے محفوظ نہیں رکھا گیا تھا۔

مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر کے محکمہ قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے ساتھ بات چیت کے بعد مذکورہ تجویز کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ وزارت داخلہ نے حکومت ہند کی وزارت قانون و انصاف سے بھی مشورہ کیا ہے۔ سی آر پی ایف ہیڈ کوارٹر سمیت دیگر فورسز نے مذکورہ حکم جاری کیا ہے۔ اس پیشرفت سے واقف ایک سینئر سی آر پی یف افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ’’سنہ 2019 میں، جب جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو ختم کیا گیا تھا، ڈیوٹی کے دوران پیش آنے والے کسی بھی واقعے میں مسلح افواج کے اہلکاروں کو گرفتاری سے چھوٹ دینے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ مرکزی وزارت داخلہ میں اس موضوع پر کافی بحث ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں مسلح افواج کے اہلکاروں کو پُر تکلف حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘

سی آر پی ایف افسر کا مزید کہنا تھا کہ ’’ماضی میں جوانوں کو حراست میں لینے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ ایسے سنگین معاملات میں فوج نے اپنے جوانوں کی حفاظت کے لیے مقامی انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ سختی سے نمٹا ہے۔ چونکہ کسی بھی قسم کی ڈیوٹی کے دوران سپاہی اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتا وہ صرف اپنے افسر کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور مقررہ (دی گئی) ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔‘‘

افسر کا مزید کہنا تھا کہ ’’جموں و کشمیر میں سیکورٹی فورسز پر ڈیوٹی کے دوران ہجوم کے ذریعہ حملہ کیا گیا ہے، خواہ وہ ناکہ ڈیوٹی ہو یا امن و امان برقرار رکھنے کا معاملہ۔ چند سال پہلے تک کشمیر میں پتھراؤ کے واقعات عام تھے۔ ان میں کئی فوجی زخمی ہو جاتے تھے۔ اس وقت جب حالات کو سنبھالنے کے لیے جوانوں کی طرف سے طاقت کا استعمال کیا گیا تو انہیں ملزم بنا کر قانونی کارروائی کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی۔ اب جموں و کشمیر اور لداخ میں جوانوں کو گرفتاری سے تحفظ دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: Flats for Outsiders in Jammu ’غیر مقامیوں کو رہائشی فلیٹس، آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کی شروعات‘

’’اب ریاستی سرکار مذکورہ دفعہ کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت اپنی پولیس فورس کو تحفظ بھی فراہم کر سکتی ہے۔ جموں کشمیر اور لداخ میں فوج کے علاوہ تمام مرکزی فورسز کے جوانوں کو گرفتاری سے تحفظ فراہم ہوگا۔ سی آر پی ایف کے حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ اگر مسلح افواج کا کوئی جوان ڈیوٹی پر سفر کر رہا ہے تو اس کی حفاظت کا بھی انتظام کیا جائے گا۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر: اراضی سے متعلق نئے قوانین کیا ہیں

افسر نے ماضی میں وادی میں پیش آئے فرضی تصادم و دیگر جرائم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ تفصیلی آرڈر جاری ہونے کے بعد کافی باتیں واضح ہونگی۔ مسلح افواج کا اہلکار اگر کوئی غلط کام انجام دیتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی لیکن گرفتاری کی اجازت مرکزی سرکار سے لینی ہوگی۔‘‘

سرینگر (جموں و کشمیر): مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر اور لداخ میں ’’آرمڈ فورسز آف دی یونین آف انڈیا‘‘ کے مسلح اہلکاروں کو گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا ہے۔ یہ حکم مرکزی نیم فوجی دستوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس تحفظ کا اطلاق ریاست میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کیا گیا ہے، اب کسی بھی اہلکار کو مرکزی سرکار کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ تین سال قبل تک ریاست جموں و کشمیر میں ’’رنبیر پینل کوڈ 1989 ‘‘ نافذ تھا جس کی وجہ سے ضابطہ فوجداری، ’سی آر پی سی، 1973 کے سیکشن 45 ‘ کے تحت، مسلح افواج کے ارکان کو گرفتاری سے محفوظ نہیں رکھا گیا تھا۔

مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر کے محکمہ قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے ساتھ بات چیت کے بعد مذکورہ تجویز کو اپنی منظوری دے دی ہے۔ وزارت داخلہ نے حکومت ہند کی وزارت قانون و انصاف سے بھی مشورہ کیا ہے۔ سی آر پی ایف ہیڈ کوارٹر سمیت دیگر فورسز نے مذکورہ حکم جاری کیا ہے۔ اس پیشرفت سے واقف ایک سینئر سی آر پی یف افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ’’سنہ 2019 میں، جب جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو ختم کیا گیا تھا، ڈیوٹی کے دوران پیش آنے والے کسی بھی واقعے میں مسلح افواج کے اہلکاروں کو گرفتاری سے چھوٹ دینے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ مرکزی وزارت داخلہ میں اس موضوع پر کافی بحث ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں مسلح افواج کے اہلکاروں کو پُر تکلف حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘

سی آر پی ایف افسر کا مزید کہنا تھا کہ ’’ماضی میں جوانوں کو حراست میں لینے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ ایسے سنگین معاملات میں فوج نے اپنے جوانوں کی حفاظت کے لیے مقامی انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ سختی سے نمٹا ہے۔ چونکہ کسی بھی قسم کی ڈیوٹی کے دوران سپاہی اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتا وہ صرف اپنے افسر کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور مقررہ (دی گئی) ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔‘‘

افسر کا مزید کہنا تھا کہ ’’جموں و کشمیر میں سیکورٹی فورسز پر ڈیوٹی کے دوران ہجوم کے ذریعہ حملہ کیا گیا ہے، خواہ وہ ناکہ ڈیوٹی ہو یا امن و امان برقرار رکھنے کا معاملہ۔ چند سال پہلے تک کشمیر میں پتھراؤ کے واقعات عام تھے۔ ان میں کئی فوجی زخمی ہو جاتے تھے۔ اس وقت جب حالات کو سنبھالنے کے لیے جوانوں کی طرف سے طاقت کا استعمال کیا گیا تو انہیں ملزم بنا کر قانونی کارروائی کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی۔ اب جموں و کشمیر اور لداخ میں جوانوں کو گرفتاری سے تحفظ دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: Flats for Outsiders in Jammu ’غیر مقامیوں کو رہائشی فلیٹس، آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کی شروعات‘

’’اب ریاستی سرکار مذکورہ دفعہ کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت اپنی پولیس فورس کو تحفظ بھی فراہم کر سکتی ہے۔ جموں کشمیر اور لداخ میں فوج کے علاوہ تمام مرکزی فورسز کے جوانوں کو گرفتاری سے تحفظ فراہم ہوگا۔ سی آر پی ایف کے حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ اگر مسلح افواج کا کوئی جوان ڈیوٹی پر سفر کر رہا ہے تو اس کی حفاظت کا بھی انتظام کیا جائے گا۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر: اراضی سے متعلق نئے قوانین کیا ہیں

افسر نے ماضی میں وادی میں پیش آئے فرضی تصادم و دیگر جرائم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ تفصیلی آرڈر جاری ہونے کے بعد کافی باتیں واضح ہونگی۔ مسلح افواج کا اہلکار اگر کوئی غلط کام انجام دیتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی لیکن گرفتاری کی اجازت مرکزی سرکار سے لینی ہوگی۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.