ETV Bharat / state

کشمیر اور سیب لازم و ملزوم - دفعہ 370کی منسوخی

میوہ صنعت کو ریاست کی اقتصادیات کے لئے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ وادی میں سالانہ سیب کی کاشت تقریباً 20 لاکھ میٹرک ٹن ہوتی ہے، اس صنعت کے ساتھ یہاں کے تقریبا 33 لاکھ افراد منسلک ہیں۔

بشکریہ گیٹی
author img

By

Published : Sep 24, 2019, 12:07 AM IST

Updated : Oct 1, 2019, 7:00 PM IST

اگرچہ دھان گیہوں، مکئی، دالیں و مختلف سبزیوں کی کاشت کرنے والے کسانوں کو چند ماہ کے اندر ہی اپنی محنت کا پھل مل جاتا ہے۔ تاہم سیب کے کاشتکار کو سیب کے پیڑ کو تیار کرنے میں برسوں گزر جاتے ہیں جس دوران اسے ایک طویل اور مشقت بھرے دور سے گزرنا پڑتا ہے جس کے بعد محنت کا پھل ملنے کی امید پیدا ہو جاتی ہے۔

کشمیر اور سیب لازم و ملزوم

سیب کا پودا لگانے کے بعد ایک کسان اس کی دیکھ بھال اس طرح کرتا ہے جس طرح والدین اپنے بچے کی پرورش کرتے ہیں۔ تاکہ مستقبل میں پیڑ اس کی آمدنی کا ذریعہ بنے۔

سیب کے ایک پیڑ کو بالغ ہونے یعنی تیار ہونے میں تقریبا بارہ برس لگا جاتے ہیں، اس بیچ ایک کسان کو پیڑ تیار کرنے میں نہ صرف طویل مشقت کے دور سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ اس کی بہتر نشونما کے لئے درکار کھاد، ادویات و دیگر کئی طرح کے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔

سیب کے پیڑ کو تندرست و بیاریوں سے پاک رکھنے کے لیے کیمیائی و گھریلو کھاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ جراثیم و اسکیب کُش ادویات کا چھڑکائو کیا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ سلسلہ ابتداء سے ہی شروع ہو جاتا ہے تاہم پیڑ کا حجم بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان سب چیزوں میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو لازم و ملزوم ہوتا ہے۔

کھاد کا استعمال سال میں کم سے کم چار بار کیا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف ادویات کا چھڑکاؤ 8سے بارہ بار کیا جاتا ہے۔

اس طرح کے عمل کا مقصد معیاری و اعلیٰ کوالٹی سیبوں کی پیداوار کو ممکن بنانا ہوتا ہے۔ تاہم ادویات کا ہر وقت استعمال کرنے کے باوجود سیب پر لگنے والی بیماریوں پر کنٹرول نہیں ہوتا۔ جس کی اصل وجہ بازار میں غیر معیاری ادویات و کھاد کا دستیاب ہونا ہے۔

ایک جانب کسان کو غیر معیاری ادویات و کھاد مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہے دوسری جانب اس کے استعمال سے سیب کی کوالٹی متاثر ہو جاتی ہے جس کے سبب سیب کی قیمت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

ستمبر میں سیب اتارنے کا موسم شروع ہونے سے قبل کاشتکار سیبوں کی پیکنگ کے لئے درکار پیٹیوں و دیگر سامان کا بندوبست کرتا ہے جس کے لئے اسے مزید ہزاروں کی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔

پیکنگ کے لئے درکار لکڑی کی پیٹی 70سے 75جبکہ گتے کی پیٹی 40روپے کے قریب مل جاتی ہے۔ وہیں پیکنگ کرنے کے لئے پیشہ ور (Packers) بھرائی والے بھی اوسطا ایک دن کا 600 روپے مزدوری لیتے ہیں۔

بھرائی ختم ہونے کے فورا بعد سیب کی پیٹیوں کو ریاست و ملک کی مختلف منڈیوں تک پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی دستیابی کافی ضروری ہوتی ہے۔ تاہم مانگ بڑھتے ہی ٹرانسپورٹ مالکان کرایہ میں من مانی کرنا شروع کرتے ہیں۔ جس دوران ایک مجبور کسان کو دوگنا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ دلی کی آزادپور فروٹ منڈی تک 60روپے فی پیٹی کرایہ مقرر ہے تاہم یہی کرایہ بڑھا کر 120روپے تک پہنچایا جاتا ہے۔

منڈی میں سیب پہنچنے کے بعد کاشتکار کو خود اپنے میوہ کی قیمت مقرر کرنے کا حق نہیں ہے۔ سیب کی نیلامی کے لیے بیٹھے تاجر و کمیشن ایجنٹس جو ریٹ مقرر کرتے ہیں اُسی حساب سے یہاں کے بیوپاری یا کاشتکار میوہ فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

کسان کو نہ صرف مارکیٹ کے اتار چڑھائو بلکہ نامساعد حالات جیسے مشکل دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھار قدرتی آفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی تازہ مثال نومبر 2018کی ہے جس دوران شدید برفباری کی وجہ سے سیبوں کے ساتھ ساتھ باغات کو بھی کافی نقصان ہوا تھا۔

ایک سیب کے پودے کو تیار کرنے اور سیب اتارنے سے لیکر منڈی تک پہنچانے کے لئے ایک کسان کو کئی طرح کے مشکل ادوار سے گزرنا پڑتا ہے جس میں کڑی محنت کے ساتھ ساتھ کافی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اکثر و بیشتر کسان سیبوں پر آرہے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ مقروض بن جاتے ہیں۔ اُسے یہی امید ہوتی ہے کہ منڈی میں میوہ فروخت کرنے کے بعد وہ قرضہ جات سے چھٹکارا پائے گا۔ تاہم مرکزی سرکار کی جانب سے دفعہ 370کی منسوخی کے بعد وادی کے حالات میں بتدریج تبدیلی آنے کی وجہ سے جہاں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے وہیں میوہ صنعت کو بھی ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ خوف وہراس کا ماحول پیدا ہونے کی وجہ سے لوگ سیب تیار ہونے کے باوجود بھی اتارتے نہیں ہیں جس کی وجہ سے اس صنعت پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

اگرچہ سرکار کی جانب سے مارکیٹ انٹروینشن اسکیم کی عمل آوری کا اغاز کیا گیا ہے ریاستی سرکار نے وادی کا میوہ خریدنے کے لیے نیفڈ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت انہوں نے 50 فیصد میوہ خریدنے کا فیصلہ لیا ہے۔ اسکیم کے تحت سیبوں کی ریٹ بھی مقرر کی گئی ہے جس میں 170سے زیادہ فروٹ گروورس نے رجسٹریشن کرائی ہے۔

دفعہ 370کے خاتمے کے بعد سرکار کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ میوہ صنعت کو نقصانات سے کیسے بچائے جس کے مد نظر اس طرح کا قدم اٹھایا گیا ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسان اپنے باغات سے سیب اتارنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے تو اس طرح کی اسکیم کا فائدہ کیا ہوگا؟۔

اگرچہ دھان گیہوں، مکئی، دالیں و مختلف سبزیوں کی کاشت کرنے والے کسانوں کو چند ماہ کے اندر ہی اپنی محنت کا پھل مل جاتا ہے۔ تاہم سیب کے کاشتکار کو سیب کے پیڑ کو تیار کرنے میں برسوں گزر جاتے ہیں جس دوران اسے ایک طویل اور مشقت بھرے دور سے گزرنا پڑتا ہے جس کے بعد محنت کا پھل ملنے کی امید پیدا ہو جاتی ہے۔

کشمیر اور سیب لازم و ملزوم

سیب کا پودا لگانے کے بعد ایک کسان اس کی دیکھ بھال اس طرح کرتا ہے جس طرح والدین اپنے بچے کی پرورش کرتے ہیں۔ تاکہ مستقبل میں پیڑ اس کی آمدنی کا ذریعہ بنے۔

سیب کے ایک پیڑ کو بالغ ہونے یعنی تیار ہونے میں تقریبا بارہ برس لگا جاتے ہیں، اس بیچ ایک کسان کو پیڑ تیار کرنے میں نہ صرف طویل مشقت کے دور سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ اس کی بہتر نشونما کے لئے درکار کھاد، ادویات و دیگر کئی طرح کے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں۔

سیب کے پیڑ کو تندرست و بیاریوں سے پاک رکھنے کے لیے کیمیائی و گھریلو کھاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ جراثیم و اسکیب کُش ادویات کا چھڑکائو کیا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ سلسلہ ابتداء سے ہی شروع ہو جاتا ہے تاہم پیڑ کا حجم بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان سب چیزوں میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو لازم و ملزوم ہوتا ہے۔

کھاد کا استعمال سال میں کم سے کم چار بار کیا جاتا ہے۔ اس طرح مختلف ادویات کا چھڑکاؤ 8سے بارہ بار کیا جاتا ہے۔

اس طرح کے عمل کا مقصد معیاری و اعلیٰ کوالٹی سیبوں کی پیداوار کو ممکن بنانا ہوتا ہے۔ تاہم ادویات کا ہر وقت استعمال کرنے کے باوجود سیب پر لگنے والی بیماریوں پر کنٹرول نہیں ہوتا۔ جس کی اصل وجہ بازار میں غیر معیاری ادویات و کھاد کا دستیاب ہونا ہے۔

ایک جانب کسان کو غیر معیاری ادویات و کھاد مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہے دوسری جانب اس کے استعمال سے سیب کی کوالٹی متاثر ہو جاتی ہے جس کے سبب سیب کی قیمت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

ستمبر میں سیب اتارنے کا موسم شروع ہونے سے قبل کاشتکار سیبوں کی پیکنگ کے لئے درکار پیٹیوں و دیگر سامان کا بندوبست کرتا ہے جس کے لئے اسے مزید ہزاروں کی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔

پیکنگ کے لئے درکار لکڑی کی پیٹی 70سے 75جبکہ گتے کی پیٹی 40روپے کے قریب مل جاتی ہے۔ وہیں پیکنگ کرنے کے لئے پیشہ ور (Packers) بھرائی والے بھی اوسطا ایک دن کا 600 روپے مزدوری لیتے ہیں۔

بھرائی ختم ہونے کے فورا بعد سیب کی پیٹیوں کو ریاست و ملک کی مختلف منڈیوں تک پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی دستیابی کافی ضروری ہوتی ہے۔ تاہم مانگ بڑھتے ہی ٹرانسپورٹ مالکان کرایہ میں من مانی کرنا شروع کرتے ہیں۔ جس دوران ایک مجبور کسان کو دوگنا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ دلی کی آزادپور فروٹ منڈی تک 60روپے فی پیٹی کرایہ مقرر ہے تاہم یہی کرایہ بڑھا کر 120روپے تک پہنچایا جاتا ہے۔

منڈی میں سیب پہنچنے کے بعد کاشتکار کو خود اپنے میوہ کی قیمت مقرر کرنے کا حق نہیں ہے۔ سیب کی نیلامی کے لیے بیٹھے تاجر و کمیشن ایجنٹس جو ریٹ مقرر کرتے ہیں اُسی حساب سے یہاں کے بیوپاری یا کاشتکار میوہ فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

کسان کو نہ صرف مارکیٹ کے اتار چڑھائو بلکہ نامساعد حالات جیسے مشکل دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھار قدرتی آفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی تازہ مثال نومبر 2018کی ہے جس دوران شدید برفباری کی وجہ سے سیبوں کے ساتھ ساتھ باغات کو بھی کافی نقصان ہوا تھا۔

ایک سیب کے پودے کو تیار کرنے اور سیب اتارنے سے لیکر منڈی تک پہنچانے کے لئے ایک کسان کو کئی طرح کے مشکل ادوار سے گزرنا پڑتا ہے جس میں کڑی محنت کے ساتھ ساتھ کافی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اکثر و بیشتر کسان سیبوں پر آرہے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ مقروض بن جاتے ہیں۔ اُسے یہی امید ہوتی ہے کہ منڈی میں میوہ فروخت کرنے کے بعد وہ قرضہ جات سے چھٹکارا پائے گا۔ تاہم مرکزی سرکار کی جانب سے دفعہ 370کی منسوخی کے بعد وادی کے حالات میں بتدریج تبدیلی آنے کی وجہ سے جہاں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے وہیں میوہ صنعت کو بھی ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ خوف وہراس کا ماحول پیدا ہونے کی وجہ سے لوگ سیب تیار ہونے کے باوجود بھی اتارتے نہیں ہیں جس کی وجہ سے اس صنعت پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

اگرچہ سرکار کی جانب سے مارکیٹ انٹروینشن اسکیم کی عمل آوری کا اغاز کیا گیا ہے ریاستی سرکار نے وادی کا میوہ خریدنے کے لیے نیفڈ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت انہوں نے 50 فیصد میوہ خریدنے کا فیصلہ لیا ہے۔ اسکیم کے تحت سیبوں کی ریٹ بھی مقرر کی گئی ہے جس میں 170سے زیادہ فروٹ گروورس نے رجسٹریشن کرائی ہے۔

دفعہ 370کے خاتمے کے بعد سرکار کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ میوہ صنعت کو نقصانات سے کیسے بچائے جس کے مد نظر اس طرح کا قدم اٹھایا گیا ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسان اپنے باغات سے سیب اتارنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے تو اس طرح کی اسکیم کا فائدہ کیا ہوگا؟۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Oct 1, 2019, 7:00 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.